إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّىٰ حِينٍ
یقیناً اس شخص کو جنون ہے، پس تم اسے ایک وقت مقرر تک ڈھیل دو (١)۔
(ف ١) ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے قوم کو کیا پیغام دیا ، اور ان کے مخالفین نے کس طرح کے بیہودہ اعتراضات سے ان کا غیر مقدم کیا ، ارشاد ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے محض توحید کی تلقین کی اور قوم سے کہا کہ صرف ایک خدا کی پرستش کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی چارہ ساز نہیں ہے ، پرہیزگاری اور تقوی کا تقاضا بھی ہے ، کہ تمہارے دلوں میں توحید کی روشنی ہو اور تم بجز اس کی ذات بےآتا کہے اور کسی کے آگے نہ جھکو ۔ قوم کے سرداروں اور بڑوں کو یہ تعلیم پسند نہ آئی کیونکہ وہ بجائے خود اپنی قوم کے معبود بنے ہوئے تھے انہوں نے کہا ہم نوح (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے ، یہ تو معمولی انسان ہے اور اس میں وہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں ، جو عام انسانوں میں موجود ہیں اس کی نبوت کا مقصد محض اظہار برتری اور علو ہے ، یہ چاہتا ہے کہ تم پر رعب گانٹھے اور حکومت کرے اگر اللہ کو یہ منظور ہوتا کہ تمہاری طرف راہنما بھیجے تو وہ فرشتوں کو حکم دیتا کہ وہ خدا کے احکام تم تک پہنچائیں اس نوع کی باتیں کہ ایک معمولی انسان اللہ کی طرف دعوت دے پاکبازی کی طرف بلائے اور بتوں کی مذمت کرے ہم نے تو کبھی اپنے باپ دادا سے سنی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دماغ میں خلل ہے اس لئے اس کے بارہ میں کچھ دنوں انتظار کرنا چاہئے ۔ حل لغات : التنور : زمین ، وادی ، وہ جگہ جہاں سے پانی برآمد ہو ۔ کل : یعنی ہر ضرورت کی چیز ، قرآن میں لفظ کل کا استعمال استغراق منطقی کے لئے نہیں ہوتا ، بلکہ عام ضروری اشیاء کے لئے ہوتا ہے ۔