سورة المؤمنون - آیت 9

وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں (١)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

نجات اور کامرانی کی سات شرطیں !: (ف1) ان آیات میں قرآن حکیم نے فلاح وبہبود کی راہوں کی تفصیل بتائی ہے ارشاد ہوتا ہے کہ نجات اور کامیابی کیلئے صرف عقیدہ کافی نہیں اور نہ صرف احسان دانی ، بلکہ ان اصلاحی واخلاقی امور کی تکمیل لازمی اور ضروری ہے جن کا ذکر ان آیات میں ہے ۔ یعنی نماز میں خشوع وخضوع ، لغویات سے احتراز زکوۃ کی ادائیگی پرہیز گاری اور امانت اور پاس عہد ، نماز کے تین درجے ہیں ، ایک یہ کہ دائما اور عادتا ان وضائف واعمال کا اعادہ کرنا جو نماز کے ارکان ضروریہ ہیں ، ایک یہ کہ سوچ سمجھ کر پڑھنا اور معانی ومطالب تک رسائی حاصل کرنا ، تیسرا درجہ یہ ہے کہ الفاظ کی روح تک پہنچ جانا اور پیکر نیاز مندی وعقیدت ہوجانا ۔ جسے حدیث میں درجہ احسان سے تعبیر کیا گیا ہے ” كَأَنَّكَ تَرَاهُ “۔ پہلا درجہ نماز کے حقیقی مقاصد کا حاصل نہیں ، اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو اور بات ہے ورنہ اس کی افادی حیثیت محض یہ ہے کہ عادت کا اعادہ اور تکرار ہے جس میں کوئی زندگی اور روح نہیں ۔ دوسرا درجہ تیسرے درجہ کا زینہ ہے کیونکہ اگر الفاظ کے معانی تک رسائی نہ ہو ، تو پھر اس کی روحانیت کو پانا دشوار ہے ۔ قرآن حکیم کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان نماز کی سچی روح سے آشناہوں اور واقعی ان اوصاف سے متصف ہوں جن کو لازما نماز پیدا کردیتی ہے ۔ لغو سے مراد بعض کے نزدیک وہ باتیں ہیں جن کا ارتکاب شرعا حرام ہے بعض کے نزدیک لغویات ان امور کو کہتے ہیں جو مباح تو ہیں مگر ان سے کوئی فائدہ مرتب نہیں ۔ لغۃ : لغو کے معنی بیہودہ کلام کے ہیں ابوعبیدہ کہتے ہیں اللغا ورفث التکلم ۔ اور اخلاق کے عرف میں ہر وہ بات جو مفید نہ ہو اور بےمعنی ہو بہرحال مقصد یہ ہے کہ جو لوگ سچے مومن ہیں ، وہ زندگی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اس لئے غیر ضروری اور غیر نافع باتوں میں نہیں الجھتے ، اور اپنا پورا وقت کامیابی وکامرانی کیلئے صرف کرتے ہیں ، گویا وہ ہمہ سعی اور ہمہ عمل ہوتے ہیں ۔ نجات وفلاح کیلئے عفاف وعصمت کی بھی ضرورت ہے یعنی مسلمان کردار وعمل کے لحاظ سے بہت مضبوط ہوتا ہے اور اپنی قوتوں کو ضائع نہیں کرتا ۔ ﴿أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ﴾سے مراد لونڈیاں ہیں ، یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ عسکری ضروریات کے ماتحت لونڈیوں سے تمتع شرعا درست ہے اور اس میں بہت سے فائدے مضمر ہیں ، دشمن ذلیل ورسوا ہوجاتا ہے ، مسلمانوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں لونڈیوں کی تربیت کا بہتر اور موزوں انتظام ہوجاتا ہے ، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غیور وباحمیت دلوں میں جنگ کے خلاف جذبات نفرت وحقارت پیدا ہوجاتے ہیں ، مگر ہماری غلام قوم چونکہ مدت سے اس مجاہدانہ فضا سے دور ہوچکی ہے اس لئے اس تمتع کو اخلاقی لحاظ سے شک وشبہ کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اسلام سے قطع نظر عسکری دواعی کے ماتحت یہ رسم ہر غریب اور ہر قوم میں عملا موجود اور ناگزیر ہے ، اسلام نے صرف اتنا کیا ہے کہ لونڈیوں کے لئے ایک تفصیلی فقہ کو پیش کردیا ہے جس میں ان کے حقوق وفرائض کو باقاعدہ واضح کیا گیا ہے ۔ کیونکہ ہم عسکری ضروریات وداعیات اور عسکری حالات کو نہیں پہنچانتے اس لئے مجبور ہیں کہ اس قسم کے احکام اور اس قسم کی رخصتوں کو نہ سمجھیں اور غلامانہ اطوار وعادات کو اس اخلاق کے لئے معیار قرار دیں ۔ سب سے آخر معاملات کے باب میں امانت اور پاس عہد کو ضروری قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان کو خائن اور دھوکہ باز نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ وہ وصف ہے جس کی وجہ سے قومیں ترقی کے فراز اعلی تک پہنچتی ہیں ، اور یہی وہ نعمت ہے جس کے معدوم ہونے سے قومیں باہمی امدادوتعاون کے جذبات کھو دیتی ہیں ۔