سورة الحج - آیت 46

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

کیا انہوں نے زمین میں سیرو سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان (واقعات) کو سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں (١)۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف2) یعنی وسوسہ کا تعلق اصل میں دل سے ہے،جب دل میں رشد وہدایت کی صلاحیت نہ ہو تو پھر مشاہدات کا انکار بھی ممکن ہے اور اگر یہ مضغہ گوشت صحیح ہو تو پھر ادنی اشارات بھی ہدایت کی جانب راہ نمائی کرسکتے ہیں ، بات یہ تھی کہ منکرین حضور (ﷺ) کو شب وروز دیکھتے تھے ، اور ان کے احوال وعادات سے واقف تھے ، ان کو معلوم تھا کہ ہر وقت اللہ کی تائید آپکے شامل حال ہے اور آپ خدا کے سچے پیغمبر ہیں ۔ وہ ہر آن ملاحظہ کرتے تھے کہ آپ انوار وتجلیات کے حامل ہیں ، اور کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کی تائید میں ہے ، مگر پھر بھی انکار کرتے گویا آفتاب کو دیکھتے اور آنکھیں بند کرلیتے ، اس کی تمازت کو محسوس کرتے ، اور منہ لپیٹے ہوئے غفلت وانکار کے لحاف میں پڑے رہتے ، کیونکہ دلوں سے حق وصداقت کو قبول کرنے کی استعداد چھن چکی تھی دل تاریک ہوچکے تھے اور بصیرت گم ہوگئی تھی ۔