يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ
جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے دفتر میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں (١) جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے (ہی) رہیں گے۔
(ف2) یعنی یہ تمام واقعات قیامت آنے کے بعد رونما ہوں گے ، اس وقت آسمان کی وسعتوں کو یوں سمیٹ لیا جائے گا ، جس طرح کاغذوں کے طو مار کو لپیٹ لیا جاتا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اتنے بڑے آسمان کو چشم زدن میں سمیٹ لینا اتنا ہی سہل ہے ، جتنا کہ خطوط کے کاغذات کو لپیٹ لینا لکھنے والے کے لئے سہل ہوتا ہے یعنی اللہ کے لئے یہ چیز جسے تم مشکل اور محال قرار دے رہے ہو بالکل آسان ہے ۔ حل لغات : السِّجِلِّ: ایک فرشتے کا نام ہے یا کاغذ کا طومار ، یا قبالہ ، یا چک یا مہر ۔