قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ
کہنے لگے! اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تو نے ہی ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تدبیر اصلاح ! : (ف ١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قصہ کو اگر اس حدیث کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے اور اس کے عام مفہوم کو مد نظر رکھا جائے ، جو لوگوں میں مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس مقام پر جھوٹ بولا تو طبیعت میں سخت خلجان پیدا ہوتا ہے ۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ صحیح حدیث بھی قرآن کے مخالف مفہوم کو بیان کرسکتی ہے اور یا پھر انبیاء سے کذب کا صدور ممکن ہے ، اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں ، نہ حدیث قرآن کے مخالف ہے ، اور نہ قرآن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تکذیب کا کہیں ذکر ہے ، اس سلسلہ میں ذیل کی باتیں پیش نظر رہنا چاہئیں ۔ ١۔ قرآن میں ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے ، ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بت پرستوں سے کہدیا تھا ، کہ میں تمہارے ہوس کو توڑ پھوڑ ڈالوں گا ۔ ٣۔ بت پرستوں کو معلوم تھا کہ یہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کی کاروائی ہے ، اس لئے صاف ظاہر ہے کہ (آیت) ” بل فعلہ کبیرھم ھذا “۔ کہنے سے مقصد واقعہ کا اخفاء نہیں ، بلکہ ایک لطیف پیرائے میں کفار کو متنبہ کرنا ہے کہ بےوقوفو ! جو بت کہ قوت گویائی اور نطق سے محروم ہیں ، اور اپنی حالت زار بھی بیان نہیں کرسکتے ، وہ تمہارے خدا کیونکر ہو سکتے ہیں ؟ چنانچہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ، کہ اس بڑے بت نے یہ کہا (ہوگا) اس سے پوچھ لو تو ان کی آنکھیں کھل گئیں ، اور ان کو غور کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ بت واقعی بیکار ہیں ، اور ان کی پرستش کھلی گمراہی اور ظلم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض دفعہ معمولی بات بھی انسان محسوس نہیں کرتا ، مگر جب اس کو ذرا چونکا دیا جاتا ہے ، تو وہ غور سے اصل حالات کا مطالعہ کرتا ہے ، اور اپنی غلطی پر متنبہ ہوجاتا ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ اس حکیمانہ اصول نفسی سے واقف تھے ، اس لئے انہوں نے بہ طریق اصلاح اختیار کیا ، اور اس میں ان کو کامیابی ہوئی ، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یہ تو نہایت عقلمندی اور دانائی ہے یعنی تدبر وتدبیر ہے ۔ اب رہا یہ معاملہ کہ حدیث میں اس کو کذبات میں شمار کیا گیا ہے تو اس کے متعلق ذیل کے نکات غور طلب ہیں ۔ (١) ۔ کذب عربی میں جھوٹ کا بالکل مترادف لفظ نہیں ہے ، بلکہ ہر بات جو بظاہر خلاف واقعہ ہو ، مگر اس سے مقصود کوئی بلند چیز ہو اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ (٢) ۔ حدیث میں کذبات کا ذکر باب معاریض میں ہے یعنی غرض مخالف کی سادگی سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ (٣) ۔ حدیث میں ابراہیم (علیہ السلام) کے کذبات ‘ کا بیان اس طرح ہے کہ میدان حشر میں ان کو سفارش کرنے میں بدیں وجہ قاتل ہوگا ، کہ ان سے نیک نیتی کے ساتھ سے ان لغزشوں کا صدور ہوتا ہے گویہ واقعہ اور دوسرے دو واقعے جھوٹ نہیں ہیں ۔ مگر انبیاء کا مقام چونکہ خشیت وخوف اور پاکبازی کے لحاظ سے بہت بلند ہے ، اس لئے وہ ان واقعات کو بھی جھوٹ کے ساتھ ادنی مماثلت ہونے کے باعث اپنے لئے معیوب سمجھیں گے ، اور سفارش کی جرات نہ فرمائیں گے ، (٤) ۔ حدیث بالکل صحیح ہے ، اس کا مقصد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کاذب ثابت کرنا نہیں ، بلکہ ان کے مرتبہ اتقاء کو ظاہر کرنا ہے ، اس لئے اس میں اور قرآن کی ان آیات میں قطعا تحالف نہیں ۔ حل لغات : فتی : نوجوان ، جوانمرد وصاحب کرم ۔