وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُّسَمًّى
اگر تیرے رب کی بات پہلے ہی سے مقرر شدہ اور وقت معین کردہ نہ ہوتا تو اسی وقت عذاب آچمٹتا (١)۔
(ف1) قریش مکہ کی سرکشیاں جب حد سے بڑھ گئیں اور وہ حضور (ﷺ) کو ناقابل برداشت ایذائیں پہنچانے لگے ، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں اپنی عزت وجاہ پر مغرور نہ ہونا چاہئے ، اور محض اس لئے نازاں نہ ہونا چاہئے ، کہ تمہارے پاس قوت ودولت کے فراواں خزانے ہیں ، تم سے پہلے گذشتہ قوموں نے بھی اللہ کی نافرمانی کی اور کبر وغرور سے اس کے پیغام کو ٹھکرا دیا ، اور اپنی مادی قوتوں پر بھروسہ کیا ، مگر جب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دوچار ہوئے تو بالکل فنا کردیئے گئے اور ان کا نشان تک باقی نہ رہا ۔ ارشاد ہوتا ہے ، کہ اللہ کی ڈھیل سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ ، اس نے اگر تم کو بعض مصالح کی بنا پر ہلاک نہیں کیا تو یہ نہ سمجھو ، کہ وہ تم سے خوش ہے ، اس کے عذاب کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جب کسی قوم کے گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو اس وقت خدائے تعالیٰ عذاب بھیجتا ہے ، بہرحال عذاب سے قبل اصلاح وتوبہ کی پوری مہلت دیتا ہے ۔ حل لغات : لِزَامًا: لزوم سے ہے یعنی حتمی اور یقینی عذاب ۔