قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس نے جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انھیں دکھائی نہیں دی، تو میں نے قاصدِ الٰہی کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں ڈال دیا (١) اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لئے بھلی بنا دی۔
(ف1) سامری نے جو یہ قصہ سنایا ہے کہ میں نے جبریل (علیہ السلام) کے نقش قدم کو دیکھ لیا تھا ، اور ایک مٹھی مٹی وہاں سے اٹھالی تھی اور اس قالب میں ڈال دی تھی ، تاکہ اس میں آواز پیدا ہوجائے ، یا تقدیس آجائے ، یہ محض اس کا اپنا وہم تھا ، جیسا کہ اس نے خود تصریح کردی ہے کہ میرے نفس نے مجھے یونہی سمجھا دیا تھا ، ورنہ قرآن حکیم نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی کہ اس مٹی کی وجہ سے اس میں آواز پیدا ہوگئی تھی ، نہ قرآن میں یہ مذکور ہے کہ جبرئیل کے نقش پا میں یہ تاثیر ہے ۔ ابو مسلم اصفہانی نے ﴿بَصُرْتُ﴾کے معنی علم کے لئے ہیں ، اور ﴿فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ﴾کے معنی سنت موسیٰ کی پیروی کے قرار دیئے ہیں ، ترجمہ یہ ہوگا کہ سامری نے کہا کہ میں نے معلوم کیا کہ یہ لوگ راہ راست پر نہیں ہیں ۔ اس لئے میں نے آپ کی اطاعت کی اور آپ کی پیروی اختیار کی پھر چھوڑ دی اور گؤسالہ پرستی کی طرح ڈالی ۔