وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں (١) پھر جب مدت ختم کرلیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں (٢) اور اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے خبردار ہے۔
بیوہ کی عدت : (ف ١) قرآن حکیم کی اصطلاح میں زوج کا اطلاق بیوی اور خاوند پر یکساں ہوتا ہے ، اس لئے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے سرمایہ راحت وسکون ہیں اور دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے ضروری وناگزیر ہے موجودہ تہذیب عورت کو ” نصف بہتر “ سے حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ۔ مگر قرآن حکیم عورت کو ” کل بہتر “ کہتا ہے اور اس لئے اس کے لئے زوج کے لفظ کو استعمال کرتا ہے ، تاکہ معلوم ہو کہ خاوند بیوی سے الگ ومستقل کوئی وجود ہی نہیں رکھتا کہ اس کا کوئی دوسرا نام ہے ۔ ان آیات میں ازواج کا ذکر ہے ، اس سے مراد بیوہ عورتیں ہیں انکی لذت کا ذکر ہے ، چار مہینے دس دن تک انتظار کریں ، اس کے بعد انہیں اختیار ہے ۔ اس مدت میں جنین کا پتہ چل سکتا ہے تین ماہ کے بعد عام طور پر جنین مذکر میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور جنین مؤنث بھی چار ماہ تک متحرک ہوجاتا ہے ، دس دن اس لئے بڑھا دیئے ہیں کہ تاکہ اگر جنین زیادہ کمزور ہو تو بھی ظاہر ہوجائے ۔ جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ حاملہ کی عدت الگ ہے یعنی اگر ایک عورت بیوہ اور حاملہ ہو تو اس کی عدت بیوہ کی مدت نہیں ہوگی ، چار مہینے اور دس دن ، بلکہ وضع حمل کی عدت ہوگی ، چنانچہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبیعہ ، سلمیہ کو وضع حمل کے بعد نکاح کی اجازت دے دی ، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اسے بعد الوجلین کو عدت ٹھہرانا چاہئے ، تاکہ عموم وخصوص میں جمع ہوجائے ، یعنی اگر وضع حمل کی مدت زیادہ ہے تو وہ عدت ٹھہرے گی اور اگر عدت کی مدت زیادہ ہے تو وہ سلسلہ جنبانی : بیوہ سے نکاح کے لئے یہ ہدایات دیں کہ تعریض یعنی اشاروں کنایوں میں اظہار مطلب کرنا گناہ نہیں ۔ البتہ ان کی رائے پر جبر کرکے الگ ان سے کوئی وعدہ لے لینا مذموم ہے اور یہ کہ اثنائے عدت میں نکاح کے لئے کوئی پختہ عہد کرنا بھی درست نہیں جب عدت گزر جائے تو پھر اختیار ہے ، اس میں حکمت یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جلدی اور انجام کار عجلت اچھی نہیں ہوتی ، بیوہ کو موقع دینا چاہئے کہ وہ اچھی طرح سوچ سمجھ لے ، اس کی رائے آزادنہ ہونی چاہئے دباؤ کسی صورت بھی مفید نہیں ہو سکتا ۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن حکیم نے نکاح کے معاملے میں عورت کی آزادی رائے کی کس قدر حفاظت کی ہے اور نسوانی حرمت وعزت کا کس قدر خیال رکھا ہے ، وہ لوگ جو معاملات میں ان باریکیوں کا خیال نہیں رکھتے بالعموم تکلیف اٹھاتے ہیں اور پشیمان ہوتے ہیں ۔ نکاح بیوگان ایک ایسا قانون ہے جس کی صحت اب مخالف حلقوں میں تسلیم کی جارہی ہے ، اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے آج سے چودہ سوسال پہلے اجازت مرحمت فرما دی اور بات بھی معقول ہے جب نکاح ایک دفعہ درست ہے اور سوسائٹی اسے معیوب قرار نہیں دیتی تو پھر یہ دوسری دفعہ کیوں درست نہیں ؟ نکاح بیوگان کی مخالفت قانون فطرت کے خلاف ہے جس سے بہت سی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ قومیں اس کو بشدت محسوس کونے لگی ہیں اور عملا اسلام کی اس سچائی کی معترف ہو رہی ہیں ۔