إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيرًا
بیشک تو ہمیں خوب دیکھنے بھالنے والا ہے (١)۔
موسی (علیہ السلام) کی دعا : (ف ١) جب نبوت مل چکی ، اور کام کی نوعیت بھی بتا دی گئی ، کہ فرعون سے مقابلہ ہے اس کی سرکشی اور طغیان کے خلاف جہاد ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اس خاص باب میں توفیق اعانت چاہی فرمایا ، میرے سینہ کو انشراح وضاحت کے انوار سے بہرہ ورکر ، میرے کام میں آسانیاں بہم پہنچا ، زبان میں حلاوت وبلاغت پیدا کر ، کہ وہ بےحس دلوں کی گہرائیوں تک پہنچ سکے ، اور میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی میرا شریک کار بنا دے ، تاکہ ہم دونوں مل کر تیری تسبیح خوانی کریں ، تیرا پیغام بنی اسرائیل کے ہر فرد تک پہنچا دیں ، اے اللہ تو ہمارے حالات سے آگاہ ہے ، ہماری ضروریات کو جانتا ہے ، اس لئے اس خدمت جلیلہ کے لئے یہ میری استدعا ہے ، اللہ نے فرمایا یہ منظور ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) تیری سب باتیں سن لی گئیں ، تمہیں یہ سب نعمتیں دیدی گئیں ، تم جاؤ ، اور بےباکانہ فرعون کے مظالم کا مقابلہ کرو ، موسی (علیہ السلام) کی اس دعا کے معنی یہ ہیں کہ ہر کام کے لئے اللہ کی توفیق اور اس کی اعانت ضروری ہے ، انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے پاکباز بندے کبھی اس کی کرم فرمانیوں سے بےنیاز نہیں ہوسکتے ۔ اس دعا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں اگر خلوص ہو ، دعا مانگنے والا اگر نیک کام کے لئے پوری توجہ کے ساتھ دعا مانگے ، اور صرف اللہ کو اپنا کارساز سمجھے ، تو وہ اس دعا کو ضرور قبول فرما لیتا ہے اور اطمینان کے لئے دن میں ڈال دیتا ہے کہ دعا قبول ہوگی ۔ دعا بجائے خود ایک عبادت ہے ، ایک لذت ہے ، محبوب سے کچھ مانگنا ہے ، اور کامیابی وکامرانی کا یقین ہے ، اور وہ لوگ جو اس لذت سے شاد کام ہیں ، وہ قبول اور عدم قبول سے بھی بےپروا ہوجاتے ہیں ، ان کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ اپنے نیاز مندانہ تعلقات قائم رکھیں ، اور بہرحال اپنی احتیاج اور اس کے غناء کو محسوس کرتے ہیں ، بھیک ملے یا نہ ملے ، انکا نصب العین مانگنا ہے اور اس کیف سے سرور حاصل کرنا ہے کہ اس محبوب حقیقی سے ایک نسبت خاص قائم ہے ادریس ۔ حل لغات : وزیرا : مضبوط معاون ، زور دار شریک کار ۔ سؤل : سوال ، مطالبہ ۔ ان اقذفیہ : قذف سے ہے ، بمعنی ڈال دیتا ، پھینک دینا ۔