وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ
اور میں نے تجھے منتخب کرلیا ہے (١) اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سن۔
(ف ٢) یہاں سے تجلی بصورت الہام کا آغاز ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) میں نے تمہیں منتخب کرلیا ہے آئندہ سے تیرا دل میرے کلام کا مہبط ہے ، سنو ، اور توجہ سے سنو ۔ حل لغات : طوی : ملک شام میں ایک وادی کا نام ہے ، اسی کو وادی امین کہتے ہیں ۔ ” احترتک “۔ سے ظاہر ہے ، نبوت کا خلعت یونہی نہیں مرحمت فرمایا جاتا ، بلکہ اس کے لئے انتخاب اور اصطفا کی ضرورت ہے ، ابتدا ہی سے انبیاء علیہم السلام میں ایک قسم کا جو ہر قابلیت ہوتا ہے ، جو وقت مقررہ کے آجانے پر اظہار پذیر ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس وقت جب کہ ذہن وفکر کی ضروریات پختہ ہوجاتی ہیں ، مقام نبوت پر انبیاء کو فائز کرتے ہیں ، اور رشد وہدایت کے لئے دنیا میں بھیج دیتے ہیں ۔ موسی (علیہ السلام) عمر کی اس منزل میں پہنچ گئے ہیں ، جہاں نبوت کا بارگراں اٹھا لینا ضروری ہوتا ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آؤ اور سنو ، تمہیں نبوت دی گئی ، پیغام یہ ہے کہ صرف میری عبادت کرو ، میری یاد میں نماز پڑھو ، قیامت کو مت بھولو ، مکافات عمل کا اصول پیش نظر رکھو ، ہر شخص کو اس کے اعمال کا برابر بدلہ ملے گا ، اور خواہشات نفس کی پیروی سے احتراز کرو ،