وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ۗ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا
اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے (١) اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے بہت ہی بہتر ہیں (٢)۔
(ف1) اللہ تعالیٰ کا جس طرح یہ قانون ہے کہ مجرموں کو اس وقت تک نہیں پکڑتا ، جب تک وہ گمراہی وہلاکت کی آخری منزلوں میں نہیں پہنچ جاتے اسی طرح اس کا یہ بھی قانون ہے کہ پاکباز لوگ جب اس کی ہدایت قبول کرلیتے ہیں تو وہ مزید توفیق واستعداد کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کے دلوں کو معارف وحکم سے معمور کردیتا ہے ، وہ نیکی اور تقوی کی صحیح قدروقیمت سے آگاہ ہوجاتے ہیں ، ان کی زندگی کا نصب العین یہی قرار پاتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو کر رہیں انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس دنیائے فانی میں باقی اور ہمیشہ رہنے والی چیز مال ودولت سیم وزر نہیں اولاد کی فراوانی نہیں ، بلکہ اعمال صالحہ اور نیکیاں ہیں جو مال اور نتیجہ کے لحاظ سے دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہیں ۔ العاص بن وائل سے حضرت خباب بن الارت (رض) نے مزدوری طلب کی تو اس بدبخت نے کہا کہ میں تو اس وقت تک تمہیں تمہارا حق نہیں دوں گا ، جب تک کہ تم محمد (ﷺ) کی رسالت کا انکار نہ کر دو ، خباب نے عشق محمد (ﷺ) میں سرشار ہو کر کہا ، کہ یہ تو کبھی ممکن نہیں ، نہ زندگی میں نہ موت کے وقت نہ اس وقت جب کہ تم خدا کے ہاں پیش کئے جاؤ گے اس کمینے نے اس جذبہ کی ہنسی اڑائی اور کہا کہ بعثت کا عقیدہ اگر بقول تمہارے صحیح ہے ، تو میں وہاں بھی آخر اسی حیثیت سے جاؤں گا ، وہاں معاملہ چکا دوں گا مطمئن رہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ اسے کیونکر معلوم ہوگیا ، کہ عقبی میں بھی اس کی یہ مالداری کی حیثیت قائم رہے گی ، کیا امور غیب وہ جانتا ہے ، یا اللہ سے اس نے اس بات کا عہد لیا ہے ۔ ارشاد ہے ، ایسا ہرگز نہ ہوگا ، وہ عذاب کیا جائے گا ، اور ہمارے روبرو نہایت بےبسی اور بیچارگی کے ساتھ پیش کیا جائے گا ۔