وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا
تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے، یہ تیرے پروردگار کے ذمے قطعی، طے شدہ امر ہے۔
(ف2) اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے تاویل کے تین پہلو اختیار کئے ہیں ۔ 1۔ اس سے مراد کفار ہیں ، جیسا کہ سیاق وسباق کا تقاضا ہے یعنی وہ لوگ جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں چلا آ رہا ہے کہ انہیں موت کے بعد اٹھایا جائے گا ، اور مکافات عمل کے اصول کے مطابق مناسب وموزوں سزا دی جائے گی ، سابقہ آیات اور اس میں صرف انداز بیان کا فرق ہے ان آیتوں میں تمام صیغے غائب کے ہیں ، اور اس آیت میں صیغہ خطاب کا ہے ، اور محض یہ تفاوت اس آیت کو دوسری آیتوں سے علیحدہ نہیں کرسکتا کیونکہ اس نوع کا اختلاف قرآن کی بیشمار آیتوں میں موجود ہے ، بلکہ بلاغت پر مبنی ہے ، ان کا تعلق ماسبق کی آیتوں سے منقطع نہیں ہوتا ، بات صرف یہ ہے کہ وہ لوگ چونکہ حشر کے معاملہ میں شبہات وشکوک کا اظہار کرتے تھے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ تمہیں دوبارہ جی اٹھنے پر تعجب ہے اور ہم یقینا تم سب کو جہنم میں پھینکیں گے ۔ اس صورت میں ﴿ثُمَّ نُنَجِّي﴾میں ثم تراخی بیان کے لئے ہوگا ، یعنی یہ معنی ہوں گے کہ تم لوگ تو سب جہنم میں جاؤ گے ، البتہ جو مومن اور متقی ہیں ، ان کے لئے ہمارا انتظام یہ ہے ، کہ ان کو نجات کا پروانہ دیا جائے اور عذاب جہنم سے قطعا بچا لیا جائے ، تائید میں یہ آیتیں پیش کی جاسکتی ہیں ، جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح اور بین ہیں ۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ﴾یعنی نیک کردار لوگ جہنم سے کہیں دور رہیں گے ، دوسری جگہ تصریح ہے کہ نیک اور پاکباز لوگ تو جہنم کی آواز تک سننے نہ پائیں گے ، ﴿لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا﴾ کیونکہ ہر تکدر کی بات سے محفوظ رکھا جائے گا ، ﴿وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ﴾گویا اس صورت میں تاویل آیات کے مطابق سیاق وسباق کے قرین اور مومن کی شایان شان ہے ۔ 2۔ آیت عام ہے مومن و کافر دونوں کو شامل ہے البتہ لفظ ورود کے معنی دخول کے نہیں ، بلکہ حضور وقرب کے ہیں مقصد یہ ہے کہ سب لوگ ایک مرتبہ جہنم کے قریب جائیں گے اور اس کو دیکھیں گے تاکہ اللہ کے مقام غضب سے آگاہ ہوں ۔ قرآن میں اور عربی لغت میں ورود ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے کہ’’ وردت القافلۃ البلدۃ “ یعنی قافلہ شہر کے قریب آپہنچا ، قرآن میں ہے﴿ وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ﴾ظاہر ہے اس سے مراد محض قریب ہونا ہے ۔ 3۔ آیت عام ہے لفظ ورود سے مراد دخول ہے مگر مسلمانوں کو جہنم میں داخل ہونے سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا ، بلکہ ان کے لئے جہنم کی آگ نار ابراہیم (علیہ السلام) ثابت ہوگی ، چنانچہ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ جہنم میں نیک وبد سب جائیں گے مگر نیکو کاروں کے لئے وه برددسلامتی میں تبدیل ہوجائے گی ، غرض یہ ہے کہ مسلمان بہرحال جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے تاویل کا کوئی پہلو تسلیم کرلیجئے ، غرض ایک ہے اور مسلمان کی نجات کی خوشخبری ہے ،