قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا
کہا اچھا تم پر سلام ہو (١) میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا (٢) وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔
(ف ١) باپ نے بتوں کی محبت میں پدری رعب وداب سے کام لیا اور ڈانٹ سے کہا کیا میں اپنے خداؤں کو چھوڑ دوں ؟ میں ہرگز اپنے عقائد سے بیقرار ہونے کے لئے تیار نہیں ، اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم ان خیالات میں الجھے رہو ، فورا توحید کے عقیدے سے باز آجاؤ ، ورنہ میں تجھے سنگسار کر دوں گا ، اور تو دور ہوجا ، اب میرے اور تیرے درمیان اختلاف کی ناقابل عبور خلیج حائل ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صدیق تھے ، حق گوئی اور بیباکی ان کا خاص وصف تھا انہوں نے یہ سب کچھ سنا ، اور نہایت استقلال اور عزیمت سے جواب دیا ، کہ جناب خدا کی راہ میں گھر کی آسائیشون کی قطعا پروا نہیں کرتا ، میں بتوں کے ساتھ ساتھ تم کو بھی چھوڑ دوں گا ، اور مجھے یقین ہے کہ میرا خدا میری دستگیری فرمائے گا ، اور ہرگز مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا ،