ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
وہ پھر ایک سفر کے سامان میں لگا (١)۔
معیار حکمرانی : (ف ١) مغرب میں فتوحات کے بعد جب ذوالقرنین نے مشرق کا رخ کیا تو وہاں ایک خانہ بدوش قوم پائی یہ اقصائے مشرق کے رہنے والے تھے ، اس کے بعد وہ دوسری جانب بڑھا یہاں دونوں طرف پہاڑ تھے اور درمیان میں ایک درہ تھا ، یہاں کچھ لوگ آباد تھے ، انہوں نے اپنی زبان میں کہا ، جسے ذوالقرنین نہیں سمجھتے تھے ، کہ یا جوج وماجوج کی قومیں ہماری ہاں آکر لوٹ مار کرتی ہیں ، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیاں ایک دیوار کھینچ دیں ؟ تاکہ ہم ان کے حملوں سے محفوظ ہوجائیں ، ہم اس کام کے مصارف بھی آپ کو ادا کرنے لئے تیار ہیں ، ذوالقرنین نے کہا مجھے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے ، تمہارے روپے پیسے کی ضرورت نہیں ، البتہ اگر تم میرا ساتھ دو تو میں ایک مضبوط دیوار تعمیر کرسکتا ہوں جس پر یاجوج وماجوج کی قومیں غالب نہ آسکیں گی ، چنانچہ ذوالقرنین نے ان کی اعانت سے ایک دیوار تعمیر کرا دی ، اور ان کو ہمیشہ کے لئے بیرونی حملہ سے محفوظ کردیا ۔ ذوالقرنین کون تھا ؟ اس کی تعمیر کردہ دیوار کہاں ہے ؟ یاجوج وماجوج کن قوموں کانام ہے ؟ اس قسم کے سوالات ہیں ، جن کا جواب تفسیر سے متعلق نہیں ، تاریخ سے متعلق ہے ۔ قرآن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ذوالقرنین نہایت نیک اور صالح بادشاہ تھا ، وہ صرف فاتح نہ تھا ، بلکہ نوع انسانی کا سچا ہمدرد بھی تھا ، وہ فتوحات کی وسعت کے ساتھ ایمان دار اور مخلوق کے دلوں کی تسخیر کرنے والا بھی تھا وہ صرف بادشاہ نہ تھا بلکہ نیک خصال اور مصلح انسان تھا ۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ، کہ بادشاہ کے فرائض کیا ہیں ، بادشاہ وہ نہیں ، جو رعیت کے مال ودولت پر غاصبانہ قبضہ جمالے اور عیش کرے ۔ بادشاہ وہ ہے جو رعایا کا خادم ہو ، اور بلا عوض محض فرضی منصبی سے متاثر ہو کر محکوموں کی فلاح وبہبود کے متعلق سوچے ، یہ وہ معیار حکمرانی ہے جس کو بادشاہوں کے سامنے قرآن پیش کرتا ہے ، اور مطالبہ کرتا ہے ، کہ خدمت اور اصلاح کو دستور العمل بناؤ اور بنی نوع انسان کی ہمدردی دلوں میں پیدا کرو تاکہ تمہاری حکومت لوگوں کے لئے خیروبرکت کا موجب ہو ، ورنہ حکمرانی اور سفاکی باہم مترادف حقیقتیں ہوں گی جو ہرگز قابل تعریف نہیں ہو سکتیں ۔ حل لغات : خرجا : خرچ ضددخل ۔ ردما : مضبوط دیوار ۔ قطرا : پگھلا ہوا تانبہ ۔ نقبا : سوراخ ، نقب اسی سے ہے ۔