إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا
ہم نے اس زمین میں قوت عطا فرمائی تھی اور اسے ہر چیز کے (١) سامان بھی عنایت کردیے تھے۔
(ف1) قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ یہودیوں کے تعلقات مشرکین مکہ سے بہت زیادہ تھے ، بنا برین مشرکین مکہ ان سے اسلام کے متعلق اعتراضات پوچھتے رہتے ، انہوں نے کہا ہوگا پیغمبر اسلام سے ذوالقرنین کے متعلق دریافت کرو ، تاکہ معلوم ہو کہ اس کا مبلغ علم کیا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے حضور (ﷺ) سے پوچھا ، یہ آیات جواب میں نازل ہوئیں ۔ قرآن حکیم کا مخصوص طرز بیان ہے ، کہ وہ غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑ دیتا ہے اور قصے کے صرف اس حصہ کو بیان کرتا ہے جس کا تعلق انسانی رشد وہدایت سے ہے ، چنانچہ قرآن حکیم نے بتایا ، کہ خدائے تعالیٰ نے اسے وسیع اقتدار دے رکھا تھا ، وہ بہت بڑا فاتح تھا ، اس کا شوق فتحیابی اسے سمندر کے کنارے تک لے گیا ، جہاں اس نے سورج کو دیکھا ، کہ گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے یعنی وہ خشکی سے بہت دور ہے ، وہاں ایک قوم آباد تھی ، اس نے درخواست کی کہ ہم سے ظالمانہ سلوک نہ کیا جائے ہم مروت واحسان کے خواہشمند ہیں ، ذوالقرنین نے انہیں تسلی دی اور کہا تم غم نہ کھاؤ میں نیکوکاروں سے نیک سلوک کروں گا ۔ حل لغات : مَكَّنَّا: مکنت سے ہے جس کے معنی قدرت اور توانگری کے ہیں ۔