سورة الكهف - آیت 45

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اور اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا (نکلتا) ہے، پھر آخرکار وہ چورا چورا ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لیئے پھرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (١)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

باقیات الصالحات : (ف ١) یہ آیت سابقہ تمثیل کا تتمہ ہے ، غرض یہ ہے کہ ان لوگوں کو جو دنیا کی آب وتاب سے مرعوب ہیں اور آخرت سے غافل ان کو بتایا جائے ، کہ بہ عروس حشمت ودولت چند ہی دنوں میں اپنا سہاگ کھو بیٹھے گی ، دنیا کی مثال کس قدر عمدہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ، کہ جیسے برسات میں ہری ہری گھاس بھلی معلوم ہوتی ہے ، اور اس کی تازگی وشادابی آنکھوں میں ایک سرور پیدا کردیتی ہے ، اسی طرح دنیا بظاہر بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے ، اور تمہارے لئے سرمایہ نشاط بہم پہنچاتی ہے ، مگر خزاں میں جس طرح گھاس سوکھ جاتی ہے ، پاؤں تلے دوری جاتی ہے ، اسی طرح دنیا پر دور خزاں آتا ہے اور اس وقت اس کی خوبصورتی اس سے چھن جاتی ہے ۔ آج جو شخص مالدار ہے سرمایہ اور دولت میں کھیل رہا ہے کل مفلس اور قلاش نظر آتا ہے ، اور ایک حبہ اس کے پاس نہیں رہتا ۔ بچے ، اور جوان جو ماں باپ کی آنکھوں کا نور ہیں ، اچانک موت کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ، اور ان کے چراغ سکون وعیش کو گل کر جاتے ہیں ، یہ ہے دنیا کی مسرتوں کا انجام ۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر محبت کس چیز سے کی جائے اور کن چیزوں کو دیرپا اور نتیجہ خیز سمجھا جائے ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے باقیات الصالحات زیادہ بہتر ہیں ، زیادہ نیک انجام ہیں اور زیادہ موزون ۔ یعنی ایسے بلند کام کرو ، جو باقی رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، دنیا مٹ جائے ، مگر تمہارے اعمال کے نقوش اس کی موج سے نہ ہٹ سکیں ، ایسے کام کرو ، جو ملت کو زندہ کردیں ، قوم کو آگے بڑھائیں ، اور خود تمہاری بات وسعادت کا باعث نہیں کیونکہ دنیا میں صرف اعمال ہی باقی رہنے والی چیز ہے ، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس صحیح معنوں میں سرمایہ بہجت و سرور وہ اعمال صالحہ کو اپنا نصب العین بنائے ۔ مال ودولت اور عزت وجاہ عارضی چیزیں ہیں تم جانتے ہو لاکھوں کرڑوں بےشمار مالدار زمین کے نیچے مدفون پڑے ہیں آج انہیں کون جانتا ہے ۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہیں ، جنہیں عزت واحترام سے یاد کیا جاتا ہے ان کے نام اور حالات زندہ ہیں ، باوجود زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں برابر جاگزیں ہیں ، یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے دنیا میں رہ کر اس کی ادنی مسرتوں سے کنارہ کشی کی ہے اور انکو اپنا نصب العین قرار دیا ہے ۔ حل لغات : عقبا : انجام ، عاقبت ، ھشیما : تنکا تنکا ۔ ھشم کے اصلی معنے توڑنے کے ہیں ۔