سورة البقرة - آیت 212

زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کافروں کے لئے دنیا کی زندگی خوب زینت دار کی گئی ہے، وہ ایمان والوں سے ہنسی مذاق کرتے ہیں (١) حالانکہ پرہیزگار لوگ قیامت کے دن ان سے اعلیٰ ہونگے، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے (٢)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شاہان فقر : (ف ٢) ابتدائے اسلام میں مسلمان بیچارے غریب اور مفلس تھے ، روسائے قریش انہیں دیکھ دیکھ کر ہنستے اور کہتے کیا وہ لوگ ہیں جو دنیا کو بدل دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے خیال میں غربت وافلاس ایک جرم تھا ناقابل عفو ، قرآن حکیم نے بتایا کہ ان کے پاس گو دولت دنیا کی فراوانی نہیں ، مگر ان کے دل ایمان کی دولت گرانمایہ سے مالا مال ہیں ، گو وہ بیش قیمت ملبوسات سے محروم ہیں ، مگر رضائے الہی کا پر فخر تاج انہیں کے لئے تکلیف دہ ہے مگر جنات ونعیم اور کوثر وتسنیم کی نعمتیں انہیں شاہان فقر کے حصہ میں آئیں گی اور تم جو سرداریوں کے مالک اور خزانوں کے سمیٹنے والے ہو ، خدا کی بادشاہت میں مفلس وقلاش ٹھہرائے جاؤ گے ، تمہارے ہاتھ میں ایک حبہ نہیں ہوگا ۔ تمہارا کبر وغرور تمہیں بےحد ذلیل ورسوا کر دے گا ، تم دیکھو گے کہ وہ جو مطاعن واستہزاء کی آماجگاہ ہیں آج سلام وتحیات کے تحفے وصول کر رہے ہیں اور تم ہر طرف سے لعن وطعن سن رہے ہو ۔ معیار عروج وصدقات : تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ دولت کی کثرت معیار عروج وصداقت ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے ، اللہ کی بخششوں کا کوئی خاص معیار نہیں ، وہ جسے چاہے ‘ دولت کے انبار بخش دے اور جس سے چاہے چشم زدن میں چھین لے ، بڑے بڑے قابل وشریف اور معزز بھوکوں مرتے ہیں اور جو کمینے اور ذلیل ہیں ان کی تجوریاں بھری رہتی ہیں ۔ اسی طرح کفار وفساق کے خزانے معمور ہیں اور مومن ومسلم کوڑی کوڑی کا محتاج ہے ، یہ اس کی بےنیازیاں ہیں کہ وہ بلاحساب ومعیار کے دیتا ہے جس کو چاہے دے ، جتنا چاہے دے ، اس کا ہاتھ روکنے والا کون ؟ البتہ اس چیز کو سلبا یا ایجابا معیار حق وباطل نہ سمجھنا چاہئے ، ایک اللہ کا پیارا بندہ سلیمان (علیہ السلام) ایسی حکومت بھی حاصل کرسکتا ہے اور مسیح (علیہ السلام) ایسا فقیر پیٹ پر پتھر بھی باندھ سکتا ہے ، اور کونین کی بادشاہتیں بھی حاصل کرسکتا ہے ، اس لئے وہ جن کے پاس دولت ہے مگر ایمان کی دولت سے محروم ہیں ‘ مغرور نہ ہوں اور وہ مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں ، اور وہ جو ایمان کے گنج گراں مایہ سے بہرہ ور ہیں ‘ وہ قلت وفقر کی شکایت نہ کریں اور کفر کے غنا کو دیکھ کر جلیں نہیں ، اس لئے کہ نہ دینے میں اسے دیر لگتی ہے اور نہ چھیننے میں ۔