إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا
بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے (١)
انسانی حقوق کی رعایت : (ف ١) اسلام جہاں عقائد پر زور دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اللہ کی چوکھٹ پر جھک جائیں ، پاکباز بنیں ، اور تخلق باخلاق اللہ کے زبور سے آراستہ ہوں ، وہاں وہ حقوق انسانی کی مراعات کو بالخصوص ذکر کرتا ہے ، اور کہتا ہے عزیز داری اور قرابت کا خیال رکھو رشتہ وتعلق کی حرمت کو ملحوظ رکھو ، مسکینوں اور محتاجوں کا خیال رکھو ، مسافروں اور غریب الوطن لوگوں کی مدد کرو ، یعنی اسلام صرف زہد و تورع کانام نہیں ، پرہیزگاری اور عبادت سے تعبیر نہیں ، بلکہ اسلام میں یہ بھی داخل ہے کہ تمہارے ماں باپ تم سے خوش ہوں ، تمہارے عزیزوں سے تمہارے تعلقات بہتر ہوں ، تمہارے دل میں مسکینوں اور غریبوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ موجزن ہو ، تمہارا گھر مسافروں اور مہمانوں کے لئے کھلا رہے ، اور اگر تمہیں ان لوگوں سے اختلاف کرنا پڑے ، تو لڑائی اور جنگ درست نہیں ، بلکہ دل نشین انداز میں ان کو سمجھا دو ، عزیزوں سے لڑائی ، انسانی حقوق سے تغافل ، والدین کی نافرمانی و ناخوشی ، مسافر اور غریبوں سے بدسلوکی ، یہ جائز نہیں ، مسلمان وہ ہے ، جو اللہ کو خوش رکھے ۔ اور اس کی مخلوق کو بھی ۔ (آیت) المبذرین “۔ وہ لوگ ہیں ، جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو معصیت کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال نہیں کرتے ، عبداللہ بن مسعود (رض) سے پوچھا گیا ، تبذیر کسے کہتے ہیں ، اس نے جواب دیا ، ” انفاق المال فی غیر حقہ “۔ یعنی ناحق اور نامناسب طور پر دولت کو صرف کرنا ۔ یہ یاد رہے کہ تبذیر واسراف کا اطلاق صرف گناہوں کے کاموں پر ہوتا ہے ، اگر ایک شخص معصیت کے لئے ایک پائی بھی صرف کرتا ہے تو یہ تبذیر اور اسراف میں داخل ہے تحدیث نعمت یا مقدور کے موافق لباس وخوراک اسراف میں داخل نہیں ، اگر ایک شخص نیک ہے اور صالح ہے اور مالدار بھی ہے تو وہ بےشک ٹھاٹ کے ساتھ رہے ، تاکہ اللہ کی نعمتوں کا اظہار ہو ، ریاکاری اور غریبوں کو مرعوب کرنا مقصود نہ ہو حل لغات : للاوابین : ادب کے معنی رجوع کرنے کے ہیں ۔ اواب : وہ شخص ہے جو ارادہ نہ رکھے اور اپنی خواہشوں کو اللہ کے تابع بنا وے ۔ کفورا : ناشکرا ، کفران سے مشتق ہے ۔ مغلولۃ الی عنقک ۔ بخل کی تشبیہ ہے ، گویا بخیل کے ہاتھ کشادہ نہیں ہوتے ۔