وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ۗ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ
ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے (١) اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے (٢)۔
(ف ٢) مخالفین کا خیال تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآنی معارف کو کسی شخص سے سیکھ لیا ہے ، اور ان کے اپنے علم وبصیرت کا یہ نتیجہ وثمرہ نہیں ہے ، اور وہ آدمی جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیکھا ہے عجمی ہے ، اس لئے نام میں اختلاف ہے کوئی کہتا ہے یعیش ہے ، کیس کے خیال میں عداس ہے کسی کی رائے میں ابو مسیرہ ہے ، بہرحال وہ کوئی عجمی ہے ۔ قرآن کہتا ہے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عجمی سے سیکھا ہے تو قرآن میں یہ فصاحت وبلاغت کیوں ہے ؟ کیوں عجمی اثرات اس میں نمایاں نہیں ۔ بات یہ ہے کہ اصل میں اس نوع کے اعتراض محض حاسدانہ ہے ورنہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ساری زندگی مخالفین کے سامنے ہے آپ نے اپنی ساری زندگی میں کہیں تعلیم حاصل نہیں کی ایک وہ دو صحبتوں میں پورا نظام دین کسی آدمی سے سیکھ لینا عقلا محال ہے ، اور پھر وہ استاذ کیوں سامنے نہ آگیا اور اسے کیوں نہ کہہ دیا کہ میاں یہ تو میرا لکھایا پڑھایا ہے تم پریشان نہ ہوجاؤ ، کہیں وہ شخص جو مجدد اور علم وبصیرت کا مالک ہو ، اس نوع کی حیرت انگیز کتاب پیش کرسکتا ہے جو علوم ومعارف کا خزانہ ہو ۔ حل لغات : روح القدس : پاکیزہ کرنے والی ، یعنی جبرئیل علیہ السلام اعجمی : غیر عربی ، عجمی ، مراد غیر فصیح ۔