سورة النحل - آیت 26

قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کیا تھا، (آخر) اللہ نے (ان کے منصوبوں) کی عمارتوں کو جڑوں سے اکھیڑ دیا اور ان (کے سروں) پر (ان کی) چھتیں اوپر سے گر پڑیں (١) اور ان کے پاس عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انھیں وہم و گمان بھی نہ تھا (٢)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

چاہ کن را چاہ درپیش ! (ف1) پہلے لوگوں کے حالات بیان فرمائے ہیں کہ انکار وتمرد کی عادتیں پرانی ہیں ، ابتداء سے بعض بدبخت ایسے موجود رہے ہیں جنہوں نے کفر وعناد سے حصہ وافر پایا ہے ۔ اور حق کے خلاف سازشیں کی ہیں شمع ہدایت کو گل کرنے کی سعی کی ہے ، گلشن حق وصداقت کی بربادی کے منصوبے باندھے ہیں ، مگر اللہ نے انہیں کے دام میں انہیں گرفتار کیا ہے ، جس طریق سے انہوں نے حق پرستوں کے خلاف عناد کا اظہار کیا ہے ، اسی طریق سے اللہ نے انکو بربادی کی راہیں دکھائی ہیں ۔ اس آیت میں تمثیل کے ذریعے اس حقیقت کو سمجھایا ہے کہ فرض کرو ، کہ ایک شخص نے ایک بڑا قلعہ تیار کیا ہے ، تاکہ اس کے ذریعے حق پرستوں کی مخالفت کرے ، ان کو شکست دے ، اللہ تعالیٰ کی تدبیر یہ ہے کہ وہی قلعہ ان لئے بربادی کا سامان بن جائے ، قلعہ کی چھت گر جائے ، دیواریں اپنی جگہ سے آرہیں ۔ اس سورت میں یہی حصارحفاظت ان کے لئے مصیبت و عذاب کی شکل اختیار کرلے ، ﴿فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ﴾ہلاکت سے تعبیر ہے ، ورنہ اللہ کے لئے آنا جانا کے الفاظ بےمعنی ہیں ۔ بعض مفسر ین کی رائے میں اس آیت میں ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس میں اختلاف ہے کہ وہ کون ہے اس آیت میں جس کی بربادی کا ذکر ہے بعض کے نزدیک نمرود ہے جس نے ایک نہایت اونچا اور بلند محل تیار کیا تھا ، تاکہ اللہ سے جنگ کرے بعض کی رائے میں بخت نصر ہے ، بعض کے خیال میں کوئی قبطی فرمانروا ہے ، بہرحال آیت میں عموم ہے اور کسی خاص واقعہ کی تاویل کے لئے ضرورت نہیں ۔