قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
ان کے رسولوں نے انھیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے (١) اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو (٢) تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ کرتے رہے ہیں (٣) اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو (٤)۔
ایمان افروز استفہام : (ف ١) ” افی اللہ شک “۔ کا انداز بیان نہایت یقین افزا اور ایمان پرور ہے یعنی دنیا کی ہر بات میں شک وشبہ کی گنجائش ہے مگر یہ ناممکن ہے کہ رب خاطر کے باب میں کسی شبہ کا اظہار کیا جائے ۔ ٍقرآن حکیم کے نزدیک اللہ کا وجود اور اس کی توحید مسلمات فطرت میں سے ہے ، یعنی یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار ہر دل میں موجود ہے ، اس لئے قرآن تعجب سے پوچھتا ہے ، کیا تمہیں اللہ کی نسبت شک ہے ؟ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ۔ قرآن نے الفاظ میں استفہام پیدا کرکے مضمون میں عجیب اثر پیدا کر دے ، وہ لوگ جو عربی ذوق سے آشنا ہیں جب اس جملہ کو پڑھیں گے تو بےاختیار ان کا جی چاہے گا کہ قلب ودل کو معارف توحید سے معمور کرلیا جائے ، یہ حقیقت ہے کہ ” افی اللہ شک “ پڑھ کر ایک دہریہ بھی محسوس کرے گا ، کہ کسی نے اسے ہلا کر خواب غفلت سے بیدار کردیا ہے ، بشرطیکہ اس کے پہلو میں دل ہو ۔ اور مذاق ادب سے بھی آشنا ہو ، ان تین حروف میں وہ اثر ہے جو شاید ہزاروں دلائل میں نہیں ۔ اس قسم کی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ قرآن ایک علمی اور ادبی معجزہ ہے ۔ ان تین حروف میں کفر وشرک پر اظہار تعجب ہے یقین افروزی ہے ۔ زجر وتوبیخ ہے ۔ فطرت وقلب کی جانب رجوع کی دعوت ہے ، جلال وہیبت ہے ، اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک زبردست قوت کند سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہی ہے ، اور آنکھیں لال پیلی کرکے پوچھ رہی ہے کہ کیوں بےوقوف ! تمہیں اب اللہ کا بھی انکار ہے ؟ سبحان اللہ ! اصل بات یہ ہے ، قلم وزبان میں طاقت نہیں ، کہ وہ ان حروف کے اثر کو بیان کرسکیں ، اس مختصر سی آیت میں غفلت وتساہل کی مذمت ہے ، توحید وتفرید کی جانب دعوت ہے ۔ گویا یوں معلوم ہوتا ہے ، جیسے کسی چیز نے چونکا دیا ہے ، اور قلب سے تمام حجاب ایک ایک کرکے اٹھ رہے ہیں ، اور وہ روشنی جو دل میں موجود تھی اور اندر پڑگئی تھی ، اب پھر اجاگر ہوگئی ہے ، اور توحید کی کرنوں سے دل جگمگا اٹھا ہے ۔ حل لغات : سبلنا : یعنی کامیابی وکامرانی کی راہیں ۔ جبار : سرکش ومتکبر ، جبکہ اللہ کی صفت ہو ، تو اس کے معنی شکستہ حالات کو درست کرنے والے کے ہوتے ہیں ۔