مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوا ۖ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ
اس جنت کی صفت، جس کا وعدہ پرہیزگاروں کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس کا میوہ ہمیشگی والا ہے اور اس کا سایہ بھی یہ ہے انجام پر ہزگاروں کا (١) اور کافروں کا انجام دوزخ ہے۔
جنت کا سادہ اور واقعی تخیل : (ف ٢) متقی اور پرہیز گار لوگ دنیا میں اپنی خواہشات نفس کو اللہ کے تابع کردیتے ہیں ، ان کا کوئی ارادہ نہیں رہتا ، خواہشیں اور مطالبے سب منشاء ایزدی کے ماتحت ہوجاتے ہیں ، کیونکہ اپنی مستی کو اللہ میں گم کردینے کا نام ہی تو اتقا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ آخرت میں ان لوگوں کے لئے حسرت وابتہاج کے تمام سامان موجود ہیں ، جس طرح دنیا میں کامیابی کا نتیجہ اور نشانی دنیوی آسائشوں کا دفور ہے ، اس طرح آخرت میں جو کہ انسانی زندگی کی تکمیل کا نام ہے ، ضروری ہے کہ تمام مادی مسرتیں جو جائز ہیں موجود ہوں ۔ یہ انسان کی فطرت ہے تمام انسان دل سے چاہتے ہیں کہ انہوں زندگی کے ایسے پرامن لمحات میسر ہوں جن میں مرض وعلالت کا شائبہ نہ ہو ، جس میں کم مائگی وافلاس کا خطرہ نہ ہو ، ظاہر ہے یہ لمحات یہاں میسر نہیں ہیں ، یہاں ہزاروں ارمان ہوتے ہیں ، ارمان ہوتے ہیں ، جو قبر تک ساتھ جاتے ہیں ، کیا یہ فطرت کی آواز نہیں کیا یہ مصنوعی تقاضے ہیں ؟ جواب ملے گا نہیں یہ عین انسانی خواہش ہے ، یہ وہ آرزو ہے جو ہر دل میں موجزن ہے ، پھر اس کی تکمیل کہاں ہوگی ؟ قرآن کہتا ہے تم اگر یہاں خواہشات نفس کے منہ میں لگام دو ، اور اپنی زندگی کو خدا کے تابع بنا دو تو آخرت میں اللہ تمہاری اس آرزو کو پورا کر دے گا کتنا سادہ اور واقعی تخیل ہے ، جنت کا جس کو اسلام پیش کرتا ہے ۔ مگر وہ لوگ جو جاہل ہیں ، اس حقیقت پر معترض ہیں ، دنیا میں ان کی تمام تگ ودو کا مقصد دنیا کی انہیں خواہشوں کی تکمیل ہے ، یہ بات اللہ کو محبوب ہے ، کہ تم مسلمان ہوجاؤ یہ سب کچھ تمہیں دوسری زندگی میں مل جائے گا ۔ حل لغات : السبیل : راہ حق ، اسلام کے نزدیک چونکہ ایک ہی راہ حق ہے ، اس لئے وہ صرف السبیل کے لفظ کے ساتھ اس کو تعبیر کرتا ہے ۔ مثل کے معنی وصف کے بھی آتے ہیں جیسے (آیت) ” مثلھم کمثل الذی استوقد “ ۔ میں ہے ۔