وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
پھر ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف! (١) ان کی آنکھیں بوجہ رنج و غم کے سفید ہوچکی تھیں (٢) اور وہ غم کو دبائے ہوئے تھے۔
حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا غم ! (ف ٢) باپ کا بیٹے کے فراق میں رونا اور غم کھانا قدرتی بات ہے ، مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) صرف یوسف (علیہ السلام) کے باپ ہی نہیں ، بلکہ ایک قوم کے بھی باپ ہیں ، جن کی جانب ان کو خلعت نبوت دے کر مبعوث کیا گیا ہے ، اس لئے غیر موزوں بات ہے کہ ایک پیغمبر اپنے بیٹے کے فراق میں ملت کے درد کو بھول جائے ۔ بات اصل یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تبلیغ واشاعت کے فرائض مدت سے ادا کر رہے تھے ، اور پیرانہ سالی میں سہارے کی ضروت تھی اپنی اولاد میں یوسف (علیہ السلام) کے سوا کوئی اہل نظر نہ آتا تھا ، جو قوم کا بہترین قائد بن سکے ، اس لئے اس کی گمشدگی کا غم نسبتا زیادہ ہوا ہے ، اور یہ غم واندوہ یوسف (علیہ السلام) کے لئے اس حیثیت سے نہیں ، کہ وہ پیارا بیٹا ہے ، بلکہ اس حیثیت سے کہ وہ آپ کا بہترین وارث ہے ، اس سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں ، یہ دراصل دین وملت کا ہی غم تھا ، جس سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) متاثر تھے ۔ حل لغات : (آیت) ” وابیضت عینہ : یعنی اخر ورقت ، آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ کظیم : جو اندر ہی اندر گھٹتا رہے ۔ اور اظہار غم نہ کرے ۔ (غصہ کا ضبط کرنے والا) اس سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صبر کے اندازہ ہو سکتا ہے ، روح اللہ : اللہ کی رحمت ، یہ یا تو بربتائے عقیدہ ہے ، کہ مسلمان کسی وقت بھی مایوس نہ ہو ، اور یا فراست پیغمبرانہ ہے کہ امید کا دیا قلب ودماغ میں روشن ہے ۔