سورة یوسف - آیت 82

وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ اس شہر کے لوگوں سے دریافت فرما لیں جہاں ہم تھے اور اس قافلہ سے بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ اور یقیناً ہم بالکل سچے ہیں (١)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) بالآخر یہ لوگ مایوس ہوگئے ، اور انہوں نے دیکھا کہ اب کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی ، اب بنیامین کا یہاں سے چھڑا لے جانا ناممکن ہے ، اس لئے اب اس سوچ میں پڑگئے کہ ابا کو کیا جواب دیں گے ، یوسف (علیہ السلام) کی وجہ سے پہلے ہی بدنام ہیں ، اب اور بھی بھرم کھل جائے گا ، ہم ابا کو یقین دلا کر لائے تھے ، کہ پوری پوری حفاظت کریں گے ، اب کس منہ سے کہیں گے کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں آسکا ، صلاح ومشورہ کے بعد قرار پایا کہ اصل واقع ان کے گوش گزار کردیا جائے ، اور کہہ دیا جائے کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے ، ہم کیا جانتے تھے کہ یہ اس طرح چور بنے گا ، ہمیں غیب کی کیا خبر تھی ، جو پہلے سے معلوم کرلیتے ، ہم کہیں گے آپ اپنی تسلی کے لئے قافلہ سے دریافت فرما لیجئے ، مصر سے تحقیق کیجئے ، ہم اس معاملہ میں بالکل سچے ہیں ، غرض یہ تھی کہ جب یوسف (علیہ السلام) کے جھوٹے معاملہ کو ہم نے سچائی کا رنگ دے دیا تھا ، اور باپ کو باور کرانے کی کوشش کی تھی ، اس موقع پر تو ہمیں بالکل کسی فریب کی ضرورت نہیں ہمیں سچائی پر پورا اعتماد ہے ، ڈر کی کوئی وجہ نہیں ، یہ ایک قسم کی تسلی تھی ، جس سے انہوں نے اس سانحہ کو فراموش کرنے کی کوشش کی اور دل میں اس کی اہمیت گھٹانا چاہی ۔ حل لغات : فلن ابرح الارض : افعال ناقصہ میں سے ہے ، یہاں ترک کے معنوں میں مستعمل ہے ۔