فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا (١) ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی (٢) اس بادشاہ کی قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے جاسکتا تھا (٣) مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو ہم جس کے چاہیں درجے بلند کردیں (٤) ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے (٥)۔
حضرت یوسف کا حسن تدبیر : (ف ١) حضرت یوسف کے قصہ میں بات صرف یہ ہے کہ بنیامین آپ کا سگا بھائی ہے ، مدت کے بعد ملاقات ہوئی ہے ، آپ بوجہ بوجہ شفقت ومحبت اسے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں ، اس لئے بہانے سے اسے طلب کیا ہے ، جبرا وقہرا روک لینا مناسب نہیں ، اس لئے ایک تدبیر کی ہے جو نہایت حکیمانہ ہے ، اناج ناپنے کا پیمانہ بنیامین کی بوری میں رکھوا دیا ، اور اس کے بعد تلاش ہوئی ، برادران یوسف کو طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ بادشاہ کا کٹورا غائب ہے ، کہیں تمہارے پاس تو نہیں ہے ، انہوں نے انکار کیا اور صفائی میں کہا تم ہماری حالات سے آگاہ نہیں ہو ، ہم چور نہیں اور نہ اس غرض سے آئے ہیں کہ ایسی بداخلاقی کا مظاہرہ کریں ، اس کے بعد خود یہ سزا تجویز کی ، کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس تمہارا وہ کٹورہ مل جائے تو تم تمہاری غلامی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں ، تلاشی کے بعد وہ برتن بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا ، اور حسب معاہدہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے میر قرار پائے ، اس عجیب وغریب طریقے سے بھائی بھائی سے مل رہا ہے ، رازی داری بھی قائم ہے اور اعتراض کی بھی گنجائش نہیں ، اس سے قبل آپ معلوم کرچکے ہیں ، کہ بیامین سے حضرت یوسف (علیہ السلام) متعارف ہوچکے ہیں اور ان سے کہہ چکے ہیں کہ فکر نہ کرو ، میں تمہارا بھائی ہوں ، گویا اس ارادے سے دونوں بھائی واقف ہیں ، اللہ تعالیٰ اس تدبیر کو اپنی جانب منسوب کرتے ہیں ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے نہایت قابلیت سے اس طے شدہ تدبیر کو نبھایا ۔ ظاہر ہے اس قصہ میں کہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا اور نہ تاویل کی ضرورت ہے ، اس میں سچ اور اس کے اخفاء کو جھوٹ سمجھا گیا ہے ، جس سے اعتراض پیدا ہوتے ہیں ، حالانکہ سچ اور جھوٹ کے لئے کچھ اور پہلو بھی غور ہوتے ہیں ۔ جھوٹ نتیجہ ہوتا ہے ، پست ترین جذبہ کے اظہار اور دوسروں کو دکھ دینے کا ، اور یہاں ان دونوں باتوں سے کوئی بات نہیں ، بنیامین پہلے آگاہ نہیں ، اخفاء نیک مقصد کے لئے ہے بھائی اپنے عزیز بھائی کی خاطر ایک تدبیر برروئے کار لاتا ہے اس میں کیا حرج ہے ؟ ، مقصود نیک ہے نتیجہ ومال مفید ہے ، دو بچھڑے ہوئے بھائی آپس میں مل رہے ہیں ، یہ ایک قسم کا حسین تدبیر ہے ، معاملہ فہمی ہے ، دقیقہ رسی ہے ، کہ اپنے بھائیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بنیامین کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سپرو کردیں ، اس میں کیا مضائقہ ہے ؟ غور طلب یہ حیثیت ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اس وقت حاکم ہیں اس صورت میں ایسے اظہار تدبیر کی ضرورت ہے ، جس سے ان کی قانونی قابلیت نمایاں ہو ، نیز یہ غلط ہے کہ ہر مقام پر صادق کی پوزیشن بہتر ہے ، بعض وقت مقابلہ ہوتو ہے عقل وخرد کا ، اور سادہ سچائی کا ، جو پیش خیمہ ہوتی ہے مصیبتوں کا ، ایسے مقامات میں حزواحتیاط سے تغافل دانائی نہیں ہوتی ، پیغمبر جس قدر صادق القول ہوتے ہیں ، اسی قدر ان میں دانائی وحکمت بھی ہوتی ہے جس سے وہ مخالفین کی گھاتوں کو سمجھتے ہیں ، کھری سچائی جس کے ساتھ عقل کی آمیزش نہ ہو ، حماقت ہے ۔