سورة یوسف - آیت 66

قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یعقوب (علیہ السلام) نے کہا! میں تو اسے ہرگز ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کو بیچ میں رکھ کر مجھے قول و قرار نہ دو کہ تم اسے میرے پاس پہنچا دو گے، سوائے اس ایک صورت کے کہ تم سب گرفتار کر لئے جاؤ (١) جب انہوں نے پکا قول قرار دے دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) باوجود مضبوط عہد لینے کے پھر بھی اللہ پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کو کارساز قرار دیا ہے ، جس کے معنے یہ ہیں کہ کلی طور پر اسباب پر توکل کرنا جائز نہیں ، خدا پرستی یہ ہے کہ ایک طرف ضروری تدابیر اختیار کی جائیں اور دوسری جانب یقین واثق ہو کہ ان اسباب میں خیروبرکت پیدا کرنا اللہ کا کام ہے ۔