وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا کہ وہ جہاں کہیں چاہے رہے سہے (١) ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکوکاروں کا ثواب ضائع نہیں کرتے (٢)۔
نفس امارہ کی شورشیں ! (ف ١) نفس کا اطلاق قرآن میں کئی معنوں میں ہوا ہے نفس کے معنی خون تن کے اور عین کے ہیں اور روح یا جان کے بھی ۔ تاکید کے لیے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے ، یہاں سے مراد ترغیبات کا وہ مرکزی شعور ہے جو گناہوں کی تحریک پیدا کرتا ہے اور برائی کے لیے گوناگوں جواز کے پہلو تلاش کرتا ہے یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ نفس بشری کا تقاضا تو یہی تھا کہ میں دعوت معصیت کو قبول کرتا اور بالخصوص ان حالات میں جب کہ خود عزیزہ مصر اظہار تعشق کر رہی تھی ، مگر نفس نبوی نے روکا پیغمبرانہ عقاف و عصمت آڑے آئی اور میں فسق و فجور کے دام تزویر سے صاف بچ کر نکل گیا اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کا وہ دور شروع ہوا ہے جب وہ غلامی سے آقائی کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں اور عزیز مصر کے مقرب خاص پاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہماری حکومتوں کے طریقے مختلف اور عجیب ہیں دیکھو باقاعدگی سے ہم نے یوسف (علیہ السلام) کے جوہروں کو نمایاں کیا ہے اور کن کن مشکلوں سے گزر کر انہوں نے اس منصب کو حاصل کیا ہے بات یہ ہے اللہ اپنے خاص بندوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا ہے اخلاق جب اس درجہ بلند ہوں تو نصرت الہی یقینی ہے حل لغات استخلصہ : اپنے لیے چھانٹ لوں ۔