سورة یوسف - آیت 11

قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

انہوں نے کہا ابا! آخر آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں (١)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یوسف (علیہ السلام) کیوں باپ کو پیارے تھے ! (ف ١) اب یوسف (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں شروع ہوتی ہیں ، بھائی ملے کرتے ہیں ، کہ یوسف کو تاریک کنوئیں میں ڈال دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اس کو بھیڑئیے نے کھالیا ہے تاکہ ہم یوسف (علیہ السلام) کی جگہ لے لیں اور باپ ہم سے زیادہ محبت کرنے لگے ۔ بات یہ تھی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خلعت نبوت ملنے والا تھا ، یہ باپ کے ہونہار اور سعادتمند صاحبزادے تھے ، باپ کو بالطبع ان سے زیادہ انس تھا ، اور یہ محبت دوسروں کو ناگوار تھی اور قرآن حکیم سے یہ ثابت نہیں ہوتا ، کہ یہ لوگ بھی انبیاء تھے ، بلکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی بدگمانی اور ان کے دوسرے افعال سے ثابت ہوتا ہے ، کہ وہ انبیاء نہ تھے کیونکہ انبیاء کا دل اس نوع کے جذبات سے پاک ہوتا ہے ۔ حل لغات : سجدین : خواب میں چاند اور سورج چونکہ جھک آئے تھے ، اس لئے انہیں انسان فرض کہ لیا گیا اور ساجدین کہا گیا ، ورنہ ساجدۃ ہونا چاہئے تھا ، تاویل ال احادیث : باتوں کی سمجھ بوجھ ، لفظ عام ہے ، مگر مراد یہاں تعبیر رؤیا سے ہے ، ضلال : گمراہی ، مغلوب ہونا ، گم ہونا ، ہلاک ہونا ، ضلال کا لفظ عربی میں وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ لغزش فکر سے لے کر گناہ کبیرہ تک سب کو ضلال کہا جاتا ہے ۔ اس لئے جہاں یہ استعمال ہو ، یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کن معنوں میں یہاں استعمال ہوسکتا ہے ، یہاں مغلوب ہونے کے معنی ہیں ۔ ان ابانا لفی ضلال مبین : یعنی ہمارا باپ مغلوب ہے ۔ کہ محبت میں ۔ غیبت الجب : کنوئیں کی تاریک گہرائیاں ۔