وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کردیتا۔ وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے۔
قانون اختلاف طبائع : (ف1) یعنی اختلاف رائے ناگزیر ہے جب تک دل ودماغ دنیا میں رہیں گے ، اختلاف باقی رہے گا ، اللہ تعالیٰ کی مشیت تکوینی نے کچھ ایسا سامان پیدا کردیا ہے کہ اختلاف سے گھبرا نہ جائیں ، اور آپ کا جی تھوڑا نہ ہو ، بتایا یہ ہے کہ ایمان وکفر میں امتیاز قدرتی بات ہے ، آپ استقلال وہمت کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتے رہیں ۔ آیت کا مقصد یہ نہیں کہ اللہ نے بعض لوگوں کو عمدا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے ، بلکہ مدعا یہ ہے کہ اللہ کی مشیت تکوینی میں جیسے ہدایت کے لئے موافق بہم پہنچائے گئے ہیں ، اس طرح گمراہی کے لئے بھی آسانیاں موجود ہیں ۔ اور اس میں انسانوں اور جنوں میں کوئی تفریق نہیں ، دونوں میں ایسے لوگ موجود رہیں گے جو جہنم کے مستحق قرار پائیں گے ۔ ﴿كَلِمَةُ رَبِّكَ﴾سے مراد ہے اللہ کا ہمہ گیر قانون اختلاف طبائع آیت میں اس قسم کے واضح قرائن موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا مقصد یہ نہیں کہ لوگ گمراہی اور ضلالت کو قبول کریں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ لوگ گمراہی قبول کریں گے ۔ ﴿إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ﴾ (مگر جن پر تمہارا پروردگار رحم کرے) ایک قرینہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو ظل رحمت میں آجائیں اللہ ان سے خوش ہے ۔ ﴿وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ﴾دوسرا قرینہ ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ و عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ متفق ہیں کہ ذلک کا مشار الیہ رحمت ہے یعنی اللہ نے لوگوں کو پیدا تو رحمت کے لئے کیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ شقاوت کو اپنے لئے پسند کریں پھر غور طلب یہ حقیقت ہے کہ اگر آیت کا یہی مفہوم ہو جو اصحاب الحاد سمجھتے ہیں تو پھر دعوت ونبوت ہی میرے سے بےسود ہے، جب یہ طے ہے کہ لوگ جہنم میں جائیں تو پھر کیوں رسولوں کو بھیجا گیا ، کیوں کتابیں نازل کیں ، اور قرآن کی کیا ضرورت تھی ، معلوم ہوتا ہے یہ مفہوم قطعی درست نہیں ۔