إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ ۖ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ
فرعون اور اس کے سرداروں (١) کی طرف، پھر بھی ان لوگوں نے فرعون کے احکام کی پیروی کی اور فرعون کا کوئی حکم درست تھا ہی نہیں (٢)۔
جہنم کی سرداری : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) نے جب فرعون کو کبر وغرور سے روکا اور ارکان حکومت کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھنے کی تلقین کی ، اس سے کہا گیا کہ بنی اسرائیل پر ظلم نہ کرو ، انہیں آزادی وحریت کی نعمتوں سے ہم کنار ہونے دو ، تو اس کے قیادت پسند مغرور نفس نے اس جائز اور درست مطالبے کو تسلیم نہ کیا جادوگروں کو بلایا ، موسیٰ (علیہ السلام) کو ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کی ، بنی اسرائیل پر اور سختیاں شروع کردیں ، محض اس بنا پر کہ طیبعت میں سیادت وفرمانروائی کا جنون تھا ، دماغ کو کبر غرور کے بام بلند سے نیچے آنا گوارا نہ تھا ، یہ کس طرح پسند نہ تھا کہ بنی اسرائیل اور فرعون ایک دین کے حلقہ بگوش ہوجائیں ایک قبطی اور اسرائیلی دونوں ایک صف میں کھڑے ہوجائیں ، اس طریق سے اس کے جذبہ قیادت وسیادت کو صدمہ پہنچتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے جو سزا تجویز کی ، وہ اس کی نفسیات کے عین مطابق ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ، (آیت) ” یقدم قومہ یوم القیمۃ “۔ یعنی قیامت کے دن بھی اس کی شان قیادت کی لاج رکھی جائے گی ، اپنی قوم کو جہنم میں لے جائے گا اور ان کے آگے آگے ہوگا ، جس طرح دنیا میں اس نے قوم کو قلزم میں غرق کردیا تھا ، اس طرح آخرت میں بھی قوم کو جہنم میں لے جانے کے لئے پیش پیش ہوگا ۔