سورة ھود - آیت 81

قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہیئے، بجز تیری بیوی کے، اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں (١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) حضرت لوط (علیہ السلام) کی عورت نے دعوت کو قبول نہ کیا اور کفر وفسق میں قوم کا ساتھ دیا ، اس لئے ضرور تھا کہ جلد اور ضروری اس کو بھی معذبین میں شامل کرلیا جائے ، حضرت لوط (علیہ السلام) چونکہ پیغمبر تھے ، انہوں نے اس برائی کے خلاف تو قوم کو بالخصوص لعن طعن کی ، مگر ان کی دعوت وتبلیغ میں بھی تفصیلی ہدایات موجود تھیں ، جن میں توحید سے لے کر اعمال تک تمام دوسری جزئیات شامل تھیں ، آپ کی بیوی نے آپ کی دعوت کا انکار کیا ، اس طرح وہ اس نظام فسق وفجور کا موجب بنی جو قوم کو تباہ کر رہا تھا ، اور اس لئے عذاب میں اس کا شمول ضروری ٹھہرا ورنہ خلاف وضع فطرت کے فعل میں کوئی عورت ساتھ نہیں دے سکتی ، یہ اس نسوانی فطرت کے خلاف ہے جس سے تخلف ناممکن ہے ۔