سورة ھود - آیت 78

وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی (١) لوط نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزہ ہیں (٢) اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں (٣

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم خلاف وضع فطرت کی عادی تھی ، ان کا خبث باطن اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ ہر وقت ان کی نظر انہیں شہوانی مشاغل کی جالب رہتی ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جب فرشتے بطور مہمان کے آئے تو انہیں خوبصورت دیکھ کر خباثت نفس میں جوش پیدا ہوا بھاگتے اور لپکتے ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے حضرت لوط (علیہ السلام) ان کی بدمعاشی سے ڈرے کہ کہیں یہ میرے مہمانوں کو ذلیل نہ کریں ، چنانچہ انہیں نصیحت فرمائی کہ کمبختو ! یہ عورتیں موجود ہیں ، جو فطرت کے تسکین نفس کے لئے پیدا کی ہیں ، ان کو چھوڑ کر تم لونڈوں پر کیوں مرتے ہو ، انہوں نے کہا ، آپ کی ان بیٹیوں (یعنی عورتوں) سے ہمیں رغبت نہیں اور آپ اس سے خوب آگاہ ہیں ، ہم تو جس خاص ارادے سے آئے ہیں ، اس کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں ، حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پہلی قوم ہے جس کی وجہ سے یہ برائی دنیا میں پھیلی ، اور آج بھی یہ مرض تہذیب شائستگی کے زمانے میں موجود ہے ، یہ مرض قوم میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حسن اخلاق مردہ ہوجائے اور قوم میں شہوانی ماحول پیدا کردیا جائے ۔ انسان بالطبع تنوع پسند ہے ، اس لئے جب جائز وناجائز کاسوال اٹھ جائے ، تو پھر تسکین نفس کے لئے عجیب عجیب طریق اختیار کئے جاتے ہیں ، اس بدنفسی سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں ، ذہنی پستی اور مردانہ جذبات ختم ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : يُهْرَعُونَ: لپکتے ہوئے ۔ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي: اشارہ عام عورتوں کی جانب ہے شفقت کے اظہار کے لئے بیٹیاں کہا ہے یعنی یہ بیچاری عورتیں جو میری بیٹیاں ہیں ، تمہارے طرز عمل کی شاکی ہیں ۔