قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو ہم تجھ سے بہت کچھ امیدیں لگائے ہوئے تھے، کیا تو ہمیں ان کی عبادت سے روک رہا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے، ہمیں تو اس دین میں حیران کن شک ہے جس کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے (١)۔
(ف ٣) حیف ہے آباء واجداد کی ایسی تقلید پر کہ انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ہم باپ دادا کے مسلک کو نہیں چھوڑ سکتے ، چونکہ ہمارے بزرگ بت پرست تھے اور وہ بتوں کو خدا مانتے تھے ، اس لئے اب ہمارے ماتھے خدا کے سامنے نہیں جھک سکتے ، (آیت) ” قد کنت فینا مرجوا “۔ کے معنی یہ ہیں کہ تیرے اعلان توحید سے ہمیں کامل مایوسی ہوئی اس سے قبل ہمیں توقع تھی کہ تیری نیکی پر سعادت مندی ہماری مخالفت پر تجھے آمادہ نہیں کرے گی ہمیں تجھ سے امیدیں تھیں ، مگر توحید کے وعظ نے ہمیں ناامید کردیا ۔ آباء سے مراد آباء علم بھی ہوسکتے ہیں یعنی ہم نے اپنے ملانوں اور مولویوں کو اسی طرح شرک کی آلودگیوں سے ملوث دیکھا ہے ۔ حل لغات : واستعمرکم : استعمار سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی آبادی چاہنے ، اور زندگانی کرنے کے ہیں ۔ مجیب : کے معنی قبول کرنے والے کے ہیں ۔