وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ یہ میں کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انھیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں (١) ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ظالموں میں ہوجائے گا (٢)۔
پہلے اعتراض کا جواب : (ف ٢) بشریت کے متعلق اعتراض کا جواب یہ ہے کہ انبیاء نے کبھی یہ دعوے ہی نہیں کیا کہ وہ عام انسانوں کی طرح حوائج بشری سے متصف نہیں ، یا ان کی ضروریات انسانی ضروریات سے مختلف ہیں ، چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کمبختو ! میں نے کب یہ کہا ہے کہ میرے پاس خزانے میں اور میں بہت بڑی دولت کا مالک ہوں ، میں تو اللہ کا رسول ہوں ، رسول اگر مالدار نہ ہو تو بھی معارف وحکم کے خزانوں سے اس کا دل معمور ہوتا ہے ، وہ فطرت کے لحاظ سے فرشتہ نہیں ہوتا مگر فرشتے اس کی تقدیس کے معترف ہوتے ہیں وہ غیب نہیں جانتا ، مگر اللہ کے عنایت کہے ہوئے علوم میں وہ کائنات میں کسی دوسرے کو اپنا شریک وسہیم نہیں بناتا ۔