فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ
اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں (١) اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ (٢) لوگوں کے (٣) اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے دو اعتراض : (ف ١) انبیاء کے متعلق یہ پرانا خیال ہے کہ انہیں فوق البشر ہونا چاہئے ، خلعت بشریت کو کسوت نبوت کے منافی قرار دنیا قدیم سے شیوہ کفر وانکار رہا ہے ، یہ اعتراض بھی قدیم ہے کہ ابتداء دعوت کو لبیک کہنے والے غریب اور مفلس لوگ ہوتے ہیں چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب قوم کو ہدایت کی جانب بلایا ، اور کہا کہ مسلک توحید پر گامزن ہوجاؤ ، ورنہ حق کے مقابلہ میں تم نپٹ نہیں سکو گے ، قدرت کا اٹل فیصلہ ہے کہ جو قومیں قانون فطرت کو نہ مانیں انہیں زندہ رہنے کا کوئی استحقاق نہیں ، قوم کے اکابر نے اس وعظ کو سنا ، اور نہایت شوخ چشمی سے کہا تم میں اور ہم میں امتیاز ہی کیا ہے ، تم بھی ایک ضرورت مندا انسان اور ہم بھی انسان نیز تمہیں اشراف قوم نے ٹھکرا دیا ہے ، بڑے بڑے لوگوں نے تمہاری اطاعت قبول نہیں کی ، کیا چند ذلیل لوگوں میں شامل ہونے کے لئے ہمیں دعوت دیتے ہو ، کیا ہم ایمان لا کر ان کی طرح ذلیل ہوجائیں ۔ بعد کی آیات میں ان دونوں اعتراضات کا مفصل جواب دیا ہے غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے قوم نوح کے اعتراضات نقل کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ فرمایا ہے ، کہ جس طرح انسان کی حقیقت ایک ہے ، اسی طرح کفر میں یکساں طور چلا آرہا ہے ، ابتدا سے لے کر اب تک کفار کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ، حل لغات : بادی الرای : اول فکر یعنی بظاہر ۔ عمیت : عمایت سے ہے ، یعنی اندھا پن تمہارے حصہ میں آیا ہے ۔