سورة یونس - آیت 37

وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل نازل ہوچکی ہیں (١) اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والا (٢) اس میں کوئی بات شک کی نہیں (٣) کہ رب العالمین کی طرف سے ہے (٤)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کتاب الہی : (ف ١) قرآن حکیم کا تعارف ہے کہ یہ کتاب دماغی افتراع نہیں ، عقل ودانش انسان کی رہن منت نہیں ، اس کا تعلق الہام ووحی سے ہے ، یہ صحیفہ آسمانی خدا کی جانب سے ، ہے نبوت یہ ہے کہ اس کا تعلق تمام سابقہ کتب سے ہے ، یہ تمام صداقتوں اور سچائیوں کی تصدیق کرتی ہے ، ہر صداقت کا خیر مقدم کرتی ہے ، اور اس میں اور دنیا کی تمام کتابوں میں ایک ربط موجود ہے پھر یہ بھی کہ ضروریات انسانی کی اس میں تفصیل ہے ، تمام معاشی واخلاقی الجھنوں کو سنبھلا گیا ہے زندگی کا لائحہ عمل اور پروگرام اس میں موجود ہے ، قلب وروح کے تمام تقاضوں کی اس میں تکمیل ہے اور غیر مشکوک کلام ہے ، اسے تسلیم کرلینے میں کوئی منطقی اشکال نہیں ، کوئی معاشی الجھن نہیں ، فطرت کا پیغام ہے اور فطرت کی طرح سادہ اور حسین ۔ حل لغات : الا ظنا : یہاں مراد وہم وتخمین ہے ۔