سورة یونس - آیت 15

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں (١) جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لائیے (٢) یا اس میں کچھ ترمیم کر دیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں (٣) بس میں تو اس کی پیروی کرونگا جو میرے پاس وحی کے ذریعے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں (٤

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) مکے والوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ آخر وقت تک انہوں نے حضور (ﷺ) کے منصب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ، ان کا یہ مطالبہ کہ قرآن میں حسب دل خواہ تبدیلیاں کر دو ، اس دعوی پر دلیل ہے ، بھلا کیا انبیاء علیہم السلام اپنی مرضی سے تعلیمات الہیہ میں اصلاح وترمیم کرسکتے ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام کے تو معنی ہی یہ ہیں ، کہ وہ ارادہ الہی کے ترجمان ہیں اپنی جانب سے وہ کچھ نہیں کہتے ، انکی ہر بات منشاء الہی کے مطابق ہوتی ہے ، انبیاء علیہم السلام کا نفس بشری اپنی تمام خواہشوں اور اقتضاء کو نفس نبوت کے تابع کرلیتا ہے ، اس لئے اپنی جانب سے تبدیلی اور اصلاح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر نبی اپنے دعوے سے دست بردار ہوجائے اور قوم کے جذبات وخیالات کے ماتحت ہوجائے ، تو پھر اس میں اور فریب کار انسان میں کیا فرق ہے ، انبیاء علیہم السلام کی باتیں محکم اور اٹل ہوتی ہیں ، جو خدا کی جانب سے ہیں ، اس میں انسانی مداخلت سراسر بےجا اور بےضرورت ہے ۔ اس آیت میں اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ۔ حل لغات : خَلَائِفَ: قائم مقام ، پس آیندگان ۔