رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اے ہمارے رب ان میں، انہیں میں سے رسول بھیج (١) جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت (٢) سکھائے اور انہیں پاک کرے (٣) یقیناً تو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
دعائے خلیل اور نوید مسیحا : (ف1) حضرت ابراہیم نے سات دعائیں اللہ سے کیں ۔ (1) ﴿رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا﴾ (2)﴿وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ﴾ (3) ﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ﴾ (4) ﴿رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ ﴾ (5) ﴿وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا ﴾ (6)﴿ وَتُبْ عَلَيْنَا ﴾ (7) ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا﴾ پہلی دعا بلد امین کے متعلق ہے ۔ دوسری وہاں کے رہنے والوں کے لیے ، تیسری میں قبولیت کے لیے استدعا ہے ، چوتھی میں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اسلام و اخلاص طلب کیا ۔ پانچویں میں مناسک و احکام کی تشریح چاہی ہے ، چھٹی میں توبہ و رحمت کی درخواست کی ہے اور ساتویں میں فرمایا کہ اللہ ان میں ایک ایسا شان دار رسول بھیج جو تیرے احکام انہیں سنائے ۔ جو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور جو ان کے دلوں اور دماغوں کو پاک اور بلند کردے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب چھ کی چھ دعائیں قبول ہوگئیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ۔ پھر ساتویں کیوں قبول نہیں ہوئی ، قرآن مجید کہتا ہے یہ بھی قبول ہوئی ، بلد حرام کو کس نے حرمت بخشی ، تین سو ساٹھ بتوں کو نکال کر کس نے خدا کے گھر میں عبادت کی اور وہ کون ہے جس نے بیت اللہ کو ، شوکت کا گھر ، بنایا جس نے ساری دنیا کے لیے اسے مفید قرار دیا اور جس نے کائنات کے ہر انسان کو اس کے آستانہ جلال پر جھکا دیا ، جواب ملے گا کہ محمد (ﷺ) ، پھر یہ بھی دیکھو کہ اللہ کی آیات کون دکھاتا ہے ، کون خدا کے کلمے پڑھ پڑھ کر سناتا ہے ، کتاب و حکمت کے دریا کون بہاتا ہے اور کون ہے جو دلوں اور دماغوں کی اصلاح کرتا ہے ۔ وہ مذکر و معلم اس کے سوا کون ہے جس نے حضرت ابراہیم کی طرح مکہ جیسی زمین کو دعوت و اشاعت کا مرکز بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس کو ماننے لگے ، قبولیت عامہ کا یہ فخر کیا فریب کار اور جھوٹوں کو بھی دیا جاتا ہے جس طرح کعبہ تمام معاہد ارضی کا مرکز ہے اسی طرح محمد (ﷺ) ساری کائنات کا آخری نقطہ عقیدت و محبت ہے ۔ حل لغات : الْحِكْمَةَ: دانائی کی بات ، اسوہ رسول ۔يُزَكِّيهِمْ: مصدر تزکیہ ، پاک کرنا ، دلوں اور دماغوں میں لطافت و نزاکت پیدا کرنا یعنی جذبہ و خیال میں آخری ارتقا کے سامان بہم پہنچانا ۔