وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کرنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے ان سے وعدہ کرلیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بے تعلق ہوگئے (١) واقعی ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور بردبار تھے (٢)
کفار کیلئے مغفرت طلبی : (ف ٢) سورۃ برات کے ابتداء میں یہ حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ ایمان کی طرف سے کفر وشرک کو اعلان بیزاری سنایا جاتا ہے آیندہ مسلمانوں کی دوستی یہ لوگ حاصل نہیں کرسکیں گے اس سے پیشتر کی آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کوئی نفع کی امید وابستہ نہ رکھیں یہ بخشش اور رحمت کا قطعا اس نہیں رکھتے ، اس آیت میں ایک شبہ کا جواب ہے ، وہ یہ کہ جب مسلمان ہوجانے کے بعد کفر سے بالکل بےتعلق خاطر باقی نہیں رہتا ، اور مسلمان دنیائے کفر سے بالکل بےتعلق ہوجاتا ہے ، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لئے کیوں دعائے مغفرت کی ۔ جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ نہایت درجہ حلیم الطبع اور شفیق تھے ، اس لئے تمام زیادتیوں کو جو منکرین کی جانب سے کی جاتیں ، بخندہ پیشانی برداشت فرماتے اور بدستور خواہش رہتی کہ یہ لوگ دولت اسلام سے مالا ہوجائیں ایسی خواہش کی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کی بخشش طلبی کا وعدہ فرمایا اور ایفائے عہد کے لئے دعا بھی کی ، مگر ان کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ پتھروں میں دل نہیں ہوتا ، اس لئے آئندہ کامل طور پر باپ سے الگ ہوگئے غرض یہ نہیں کہ کفر واسلام کا تفاوت پسروپدر کے اخلاق میں حائل ہوجاتا ہے اور باپ کی عزت واعانت سے روکتا ہے ، بلکہ غرض یہ ہے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد روحانی تعلق قریب سے قریب رشتہ دار کے ساتھ بھی باقی نہیں رہتا ۔ یہ بھی مقصود نہیں کہ منکرین کے لئے اظہار ہمدردی ناجائز ہے ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ کفر کو قابل عفو سمجھنا گناہ ہے ۔