يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
یہ لوگ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے اللہ تعالیٰ ہم کو تمہاری خبر دے چکا ہے اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری دیکھ لیں گے پھر اسی کے پاس لوٹائے جاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے پر وہ تم کو بتا دے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔
منافقین کی معذرت : (ف1) ایک وہ خوش نصیب مسلمان تھے جنہوں نے رسول کی پیروی کی اور توحید کی حفاظت کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ، میدان جہاد میں پہنچے اور کفار سے لڑے ، دوسرے وہ محرومان قسمت تھے ، بزدلی نے جن کی راہنمائی کی ، اور گھروں میں گھسے بیٹھے رہے اور اس وقت بیٹھے رہے جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ لوگ سربکف ہو کر نکلتے اور اپنے خون سے شجر اسلام کو سینچتے ، یہ جرم واقعی غداری ہے ، اللہ سے غداری ہے رسول سے غداری ہے اور اسلامی مصالح سے غداری ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب آپ لوگ جہاد سے لوٹیں گے تو یہ لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آئیں گے اور جھوٹے عذر پیش کریں گے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ انکے دلوں میں بھی اسلام کی ویسی ہی محبت ہے جیسی دوسرے صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کے دلوں میں اور یہ چاہتے تھے کہ جہاد میں شریک ہوں اور کفار کی صفوں کو کاٹ کر رکھ دیں ، مگر کچھ ایسی ایسی مجبوریاں تھیں جنہوں نے پاؤں پکڑ لئے فرمایا ، یہ جھوٹے ہیں ، آپ ہرگز تسلیم نہ کیجئے گا ، آپ کہہ دیجئے اللہ نے تمہارے سارے بھید کھول کر بیان کردیئے ہیں ، اور تمہاری ساری شرارتوں کو واضح کردیا ہے ، اس لئے ہم لوگوں کو دھوکہ نہ دو ہم تمہارے حالات سے آگاہ اور باخبر ہیں ، آیندہ بھی اللہ تعالیٰ تمہارے نفاق کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے گا ، اور یاد رکھو ، یہ چالبازیاں تمہاری صرف اس دنیا تک کے لئے ہیں ، بالآخر تم کو اللہ کے حضور میں پیش ہونا ہے جو چھپی ڈھکی اور کھلی ، ظاہر ، ہر چیز کو جانتا ہے ، بتاؤ اس وقت کیا عذر پیش کرو گے ، فرمایا ، یہ لوگ اس درجہ ذلیل اور جھوٹے ہیں کہ قسمیں کھائیں گے تاکہ آپ ان سے غرض نہ کریں آپ واقعی ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجئے ، یہ لوگ ناپاک ہیں اور ناقابل التفات ہیں یہ ہزار کوششیں کریں ، اللہ ان سے خوش نہیں ہونے کا ، اس لئے کہ انہوں نے اس کو اس کے دین کو اور صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین اور ان کی مصلحوں کو دھو کہ دیا ہے ، فرمایا ان میں سے جو لوگ دیہاتی ہیں وہ کفر ونفاق میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں انہیں تو یہ معلوم ہی نہیں کہ حدود اسلامی کیا ہیں یہ طبائع کے سخت اور اکھڑ ہیں ۔ حل لغات: أَخْبَارِكُمْ: یعنی حالات ۔ عَالِمِ الْغَيْبِ: اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ، مقصد یہ ہے کہ جن چیزوں کو تم سمجھتے ہو ، کہ آنکھوں سے اوجھل ہیں ، وہ ان کو بھی جانتا ہے ۔