لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں، ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راہ نہیں، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے (١)۔
جہاد سے کون کون مستثنی ہیں : (ف1)جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے ، جس میں تساہل وتخلف جائز نہیں ، اس آیت میں بتایا ہے کہ مندرجہ ذیل لوگ عموم حکم سے مستثنی قرار پائیں گے ۔ (1) الضعفاء یعنی کمزور وناتواں اشخاص ۔ (2) مریض ۔ (3) مفلس ، یعنی جس کے پاس جہاد کی تیاری کے لئے سامان نہ ہو ۔ (4) جوسواری نہ رکھتا ہو ۔ غرض یہ ہے کہ جہاد میں شرکت کے لئے اچھے طبقے کے لوگ جائیں ، جن کی رگوں میں خون دوڑ رہا ہو ، جو جہاد میں اپنے مصارف برداشت کرسکیں ، جن کے پاس آلات جہاد ہوں اور جنہیں ہر طرح سپاہی قرار دیا جاسکے ۔ رسول اللہ (ﷺ) کے عہد بابرکت میں کوئی متعین فوج نہ تھی بلکہ ہر شخص بجائے خود سپاہی تھا ، اور ذمہ داری کے فرائض کو پہچانتا تھا اس لئے ہر سپاہی کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ آلات جہاد حتی المقدور خود مہیا کرے ، یہ لوگ جو مستثنی قرار پائے ہیں ، ان کے لئے خلوص ومودت شرط ہے ، یہ ضروری ہے کہ دلوں میں جہاد کا زبردست جذبہ موجود ہو ، اس حد تک کہ جانبازی ذاتی شوق کی صورت اختیار کرلے ، اور جب یہ شوق معذوری کی وجہ سے پورا نہ ہو ، تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں ۔ یہ صرف حکم نہیں قرون اولی کے مسلمانوں کی سچی تصویر ہے ، کہ ان کے دلوں میں کس درجہ جہاد سے محبت تھی ۔ حل لغات : نَصَحُوا: مخلص رہنا ۔