سورة التوبہ - آیت 90

وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وہ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی (١)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

معذرین : (ف ١) اس وقت تک مدینے والوں کا بیان تھا کہ کس طرح میں منافقین نے بزدلی پھیلائی اور کیونکر وہ جہاد سے پیچھے رہے ان آیات میں دیہات والوں کا قصہ ہے کہ ان میں بھی منافق ہیں ، اعراب اصل میں وہ لوگ تھے ، جو حضرمی زندگی نہیں بسر کرتے تھے ، ہاویہ پیمایا صحرا انور تھے ، ان میں عامر بن طفیل کے آدمی آئے کہنے لگے ، کہ اگر ہم جہاد میں شریک ہوجائیں ، تو بنی طے ہمارے مواشی لوٹ کرلے جائیں گے ، اور ہمارے غیر حاضری میں ہمیں نقصان پہنچائیں گے ، کچھ لوگ وہ تھے جو یوں ہی گھروں میں بیٹھ رہے ، اور عذر ومعذرت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں محسوس کی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، ان میں کوئی بھی عندا للہ معذور نہیں ، کیونکہ جہاد کا اذن عام ہوچکا ، اور ہر وہ شخص جو تخلف اختیار کرلے گا منافق قرار پائے گا ، اور ملت کی جانب سے غداری کی سزا کا مستحق ہوگا ۔ حل لغات : الخیرات : بھلائیاں ۔ الفوز : بمعنے فیروزی ، کامیابی ۔ المعذرون : قراء زجاج ابن الایتاری ، ابی عبید افضل اور ابی حاتم کے نزدیک اس سے مراد معتذر ہیں ، جن کے روز صبح ہوں ، جوہری اور زمخشری کے نزدیک اس کے معنی صحیح عذر والے کے ہیں ، اور یہی معنی درست ہیں ۔