سورة التوبہ - آیت 90

وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وہ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی (١

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

معذرین : (ف1) اس وقت تک مدینے والوں کا بیان تھا کہ کس طرح ان میں منافقین نے بزدلی پھیلائی اور کیونکر وہ جہاد سے پیچھے رہے ان آیات میں دیہات والوں کا قصہ ہے کہ ان میں بھی منافق ہیں ، اعراب اصل میں وہ لوگ تھے ، جو حضرمی زندگی نہیں بسر کرتے تھے ، بادیہ پیمایا صحرا انور تھے ، ان میں عامر بن طفیل کے آدمی آئے کہنے لگے ، کہ اگر ہم جہاد میں شریک ہوجائیں ، تو بنی طے ہمارے مواشی لوٹ کرلے جائیں گے ، اور ہمارے غیر حاضری میں ہمیں نقصان پہنچائیں گے ، کچھ لوگ وہ تھے جو یوں ہی گھروں میں بیٹھ رہے ، اور عذر ومعذرت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں محسوس کی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، ان میں کوئی بھی عندا للہ معذور نہیں ، کیونکہ جہاد کا اذن عام ہوچکا ، اور ہر وہ شخص جو تخلف اختیار کرے گا منافق قرار پائے گا ، اور ملت کی جانب سے غداری کی سزا کا مستحق ہوگا ۔ حل لغات : الْمُعَذِّرُونَ: قراء زجاج ابن الایتاری ، ابی عبید افضل اور ابی حاتم کے نزدیک اس سے مراد معتذر ہیں ، جن کے عزر صحیح ہوں ، جوہری اور زمخشری کے نزدیک اس کے معنی صحیح عذر والے کے ہیں ، اور یہی معنی درست ہیں ۔