فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر حرمت والے مہینوں (١) کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو (٢) انہیں گرفتار کرو (٣) ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو (٤) ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو (٥) یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
(ف ١) اعلان جنگ کے بعد جنگ ضروری ہے اس میں کوئی دوستی اور مداہنت روا نہیں ، جب کفر وشرک کی اذیتیں حد سے گذر جائیں جب اللہ کے بندوں کو محض ایمان کی وجہ سے مصائب کا آماجگاہ بنا لیا جائے ، جب اللہ سے دوستی کفر کے لئے باعث تکلیف ہو اور مسلمان کے لئے باعث ابتلا ، تو اس وقت آخری فیصلہ کی حاجت ہے یعنی جنگ اور اعلان کے بعد مشرک کے لئے کہیں جائے پناہ نہیں ، اس وقت بےدریغ قتل کرنا ہی خلق خدا کے ساتھ رحم کرنا ہے اس وقت شرارت وفساد کو بیخ وبن سے اکھاڑ ڈالنا ہی امن وسل امتی ہے ۔ البتہ اگر مشرک تائب ہوجائے ، کافر اسلام قبول کرلے ، اور نیک بننے کا عہد کرلے تو پھر اللہ کی آغوش رحمت واہے ، اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی ،