سورة البقرة - آیت 109

وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسد و بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مخاض بن عاذ وراء اور زید بن قیس یہودی نے جب دیکھا کہ غزوہ احد میں عارضی شکست ہوگئی ہے تو انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) اور حضرت عمار (رض) سے کہا ، آؤ پھر سے یہودی ہوجاؤ ، کیوں ہزیمت اٹھاتے ہو مسلمان رہ کر حضرت عمار (رض) نے فرمایا ، تمہارے مذہب میں نقض عہد کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ؟ انہوں نے کہا ۔ بہت بری نظر سے ، فرمایا تو سن رکھو ، میں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جیتے جی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیزار نہیں ہونے کا ، حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا ، میں تو بہرحال اللہ سے خوش ہوں ، اس کے دین سے خوش ہوں ‘ اس کی کتاب سے خوش ہوں ، اس کے بنائے ہوئے قبلہ سے خوش ہوں اور مسلمانوں کی ہمہ گیر اخوت پر خوش ہوں ، یہ سن کر وہ مایوس ہوگئے بہرحال ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں اسلام کے متعلق بدظنی پیدا کی جائے ، ان آیات میں فرمایا کوئی مضائقہ نہیں ، تم ان سب سیاہ کاریوں کو برداشت کرو اور معاف کر دو وقت آئے گا کہ حق خود بخود ظاہر ہوجائے گا ، اس لئے کہ اللہ کے لئے حالات کا بدل دینا کوئی مشکل نہیں ۔