أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ (١)۔
عہد فطرت : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ عہد ومیثاق کا تعلق فطرت وتکوین سے ہے ، انبیاء محض اس لئے مبعوث ہوتے ہیں ، تاکہ وہ اس عہد کو تاکید وتوضیح کے ساتھ ان کے سامنے دوبارہ پیش کردیں ، ورنہ انسانوں کے ضمیر میں اور ان کی گھٹی میں توحید اور اعتراف حق ودیعت ہے ، یعنی اللہ نے جب سے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی رگ رگ اور نس نس سے اعتراف و ایمان کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، ناممکن ہے ، کہ انسان اللہ سے بےنیاز ہو سکے ، اور اس کی احتیاج کو برملا محسوس نہ کرے ۔ عہد الست سے یہی مقصود ہے ، (آیت) ” قالوا بلی “۔ میں قول زبان حال سے تعبیر ہے ، جس طرح کہا جاتا ہے ، اذا متلاء الحوض قال قطنی ۔ یعنی انسانی بناوٹ انسانی اعضاء وجوارح میں قدرت الہی کا مظاہرہ ، بند بند اور جوڑ جوڑ میں حکمت ودانائی کا ظہور ، یہ اس بات کا بولتا ہوا ثبوت ہے کہ غالب ودانا خدا کی یہ سب صنعت گری ہے ۔ حل لغات : نباء : مشہور بات ، نبوہ سے مشتق ہے ، جس کے معنی بلندی کے ہیں ، اور جو چیز بلند ہوتی ہے مشہور ہوتی ہے ۔