وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا (١) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا (٢)
چلہ : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کسب انوار کے لئے طور پر بلایا اور کہا چالیس راتیں یہاں زہد وتقشف میں بسر کرو ، میری نگرانی میں رہو پھر تمہیں توریت دی جائے گی اور شریعت کے اسرار ورموز سے آگاہ کیا جائے گا مقصد یہ تھا اس طرح ترک علائق سے دل میں یکسوئی پیدا ہوجائے ، بےگانگی اسباب سے دل جمعی واستقلال کی عادت پڑجائے ، اور جناب موسیٰ (علیہ السلام) اس قابل ہوجائیں کہ منصب نبوت کے بار عظیم کو باحسن وجہ اٹھا سکیں ، بات یہ ہے کہ جمال مطلق سے بہرہ اندوز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ گوشہ ہائے قلب میں ریاضت کے دئیے روشن ہوں اور شوق ومحبت کے دیئے جلیں ، قلب کا گوشہ گوشہ آغوش انتظار ہوجائے اور بال بال رواں رواں زدن سپاس ہو کر محنت کش حمد ہو ، دل کی دنیا میں سوا ذکر وشغل کی آبادی وعمران کے اور کچھ موجود نہ رہے ، یعنی عملا ثابت کردیا جائے ، کہ سینے میں اللہ کی محبت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، زبان حمد وستائش کے ترانوں سے حظ اٹھا رہی ہے جبیں آستان یار پر جھکی ہے ، اور آنکھیں راستے میں بچھی جاتی ہیں ، جب جا کر کہیں وہ جہاں آراء دل میں آتا ہے ۔