أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکور میں ہیں) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ نہ سن سکیں (١)۔
(ف ١) مقصد یہ ہے ، کہ وہ لوگ جو مجرم ہیں جنہوں نے سرکشی اور تمرد سے دنیائے دین میں طوفان برپا کر رکھا ہے ، اور جو دن رات معصیت اور گناہ میں صرف کرتے ہیں ، جن کے دل بےکیف اور آنکھیں بےنور ہوچکی ہیں جن کے متعلق علم الہی کا فیصلہ یہ ہے ، کہ حرف غلط کی طرح ہٹ جائیں ، وہ مامون کیوں ہیں ، انہیں ہلاکت وتباہی کی فکر کیوں نڈھال نہیں کردیتی ، وہ کیوں نہیں سوچتے کہ عذاب کی گھڑیاں قریب آرہی ہیں ، کیا عذاب الہی کے لئے کوئی دقت ہے جو اس کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کو معلوم ہونا چاہئے ، کہ عذاب کے لئے کوئی خاص ذلت نہیں ، وہ اس وقت آسکتا ہے جب کہ یہ سوجائیں ، اور دنیا ومافیہا سے غافل ہوں ، وہ اس وقت آسکتا ہے ، جب کہ یہ لہو ولعب میں مشغول ہوں ، اور بالکل بےخطر ہوں ، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی تدبیریں محکم ہیں ، جن سے بچ نکلنا محال ہے ۔ حل لغات : مکر اللہ : بمعنے اللہ کی تدبیر محکم ، حبل فصدوہ ، کہتے ہیں ، مضبوط رسی کو ۔