سورة الاعراف - آیت 53

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ان لوگوں کو اور کسی بات کا انتظار نہیں صرف اس کے اخیر نتیجہ کا انتظار ہے (١) جس روز اس کا اخیر نتیجہ پہنچ آئے گا اس روز وہ لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی سچی باتیں لائے تھے سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ ہماری سفارش کر دے یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم لوگ ان اعمال کے جو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال کریں بیشک ان لوگوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور یہ جو جو باتیں تراشتے تھے سب گم ہوگئیں (٢

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) مقصد یہ ہے کہ قرآن حکیم نہایت تفصیل سے دلائل بیان کرتا ہے علم وہدایت کی باتیں تکمیل اور جامعیت کے ساتھ دہراتا ہے ، اس پر بھی وہ نہ مانیں تو کیا پھر انجام کار کا انتظار ہے ۔ جب وہ وقت آپہنچے گا ، اس وقت یہ پچھتائیں گے ، اور کچھ نہ ہو سکے گا یہ چاہیں گے دوبارہ مہلت مل جائے ، کچھ لوگ بخشش کی سفارش کردیں ، اور یہ دونوں باتیں وہاں نہ مل سکیں گی ، کیونکہ حجت تمام ہوچکی ہے ۔ حل لغات : تَأْوِيلَ: انجام ، عاقبت ، حقیقت ، معنی ۔