سورة الاعراف - آیت 46

وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی (١) اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہونگے وہ لوگ (٢) ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے (٣) اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے السلام علیکم! ابھی یہ اہل اعراف (دوزخ اور جنت کے درمیان) جنت میں داخل نہیں ہوئے ہونگے اور اس کے امیدوار ہونگے (٤

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

اعراف : (ف1) جنت اور دوزخ کے بین بین ایک برزخ ہوگا جسے قرآن کی اصطلاح میں اعراف کہا جاتا ہے ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ، وہاں ایسے لوگ رہیں گے ، جو جنت میں داخل نہیں ہوئے جن کو یہ معلوم نہیں ، کہ ہمیں کہاں رکھا جائیگا ، جنت والوں کو دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں ، اور جہنم والوں کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں ، ان کی خواہش یہ ہے ، کہ جنت میں رہیں ۔ بات یہ ہے کہ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہیں ایک وہ ہیں جن تک اسلام کی نعمت پہنچی اور انہوں نے قبول کرلی ، ایک وہ ہیں جن تک اسلام پہنچا مگر وہ بدبختی کی وجہ سے محروم رہے باقی سب وہ ہیں جن تک یا تو پیغام پہنچا نہیں یا پہنچا مگر غلط صورت میں لیکن بجائے خود وہ نیک تھے ہر حالت میں موحد رہے جن کی لگن دل میں موجود رہی ، اور کوشش کرتے رہے ، کہ اللہ کے دین کو معلوم کریں ، اسی اثناء میں موت آگئی زندگی نے زیادہ دیر تک وفا نہ کی ، اور انہیں حق شناسی کا موقعہ نہ ملا ، ایسے لوگ ظاہر ہے جہنم میں نہیں جائیں گے ، جنت کے بھی مستحق نہیں ہیں ، لہذا مقام اعراف میں رکھے جائیں گے ، اسلام دین فطرت ہے وہ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا ، اس لئے ضروری تھا ، کہ ایسے نیک لوگ جو معذور ہیں ، جہنم کے عذاب سے بچ جائیں ، اور ایک گونہ راحت میں رہیں ۔ حل لغات : حِجَابٌ: پردہ ، برزخ ۔ سِيمَا: بمعنی نشان وعلامت ، مجازا بمعنے پیشانی ۔